ہم لوگ بحیثیتِ مجموعی بھیڑ چال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دل کش نعروں، خوب صورت وعدوں اور دل فریب باتوں کے جال میں جلدی آ جاتے ہیں۔ جدھر کی ہوا ہو، اُدھر کو چل پڑتے ہیں، بنا سوچے اور بغیر سمجھے۔
2017ء میں رمضان کے مقدس مہینے میں پھلوں کی قیمتیں ہوش رُبا حد تک بڑھ گئیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ لوگ ماہِ مقدس کے آنے سے پہلے ہی اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ کرلیتے ہیں اور متبرک مہینے میں صارفین کو کُند چھری سے ذبح کرتے ہیں۔ انتظامیہ اور ذمے داران سب کچھ دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ ان کا حصہ پوری ایمان داری کے ساتھ انھیں پہنچا دیا جاتا ہے۔
بات ہو رہی تھی 2017ء کی۔ پھلوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، تو کراچی سے ’’فروٹ بائیکاٹ مہم‘‘ کا آغاز ہوگیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف تین دن کے بائیکاٹ نے منافع خور اور ذخیرہ اندوز تاجروں کے ہوش ٹھکانے لگا دیے اور پھلوں کی قیمتیں کم ہوگئیں۔ اس کے بعد ہر سال یہ پریکٹس دہرائی جانے لگی، مگر 2017ء والی بات نہ بن سکی۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
امسال ایک مرتبہ پھر کراچی سے ہی یہ تحریک اٹھی ہے۔ ہو سکتا ہے پورے ملک میں پھیل جائے۔ حالاں کہ یہ کوئی منظم مہم نہیں، مگر آج کل ہر ایک کی سوشل میڈیا تک رسائی ہے۔ فیس بُک، واٹس اَپ، ایکس (ٹوئیٹر)، انسٹا گرام کے ساتھ ساتھ جب پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا بھی بھرپور کوریج دے، تو یہ مہم منظم صورت اختیار کرسکتی ہے۔ ماضی میں لوگوں نے واقعی پھلوں کا ہر ممکن حد تک بائیکاٹ کیا، مگر لوٹ مار کرنے والا مافیا بھی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ چناں چہ بائیکاٹ تو ہوا، مگر پھلوں کی قیمتیں نیچے نہ آ سکیں۔
اب پھر پھلوں کی قیمتیں یک دم بڑھا دی گئی ہیں جو پورا مقدس مہینا بڑھی رہیں گی۔ کیلا تین سے چار سو روپے درجن، کینو اچھا آٹھ سو روپے درجن، سیب چار سے چھے سو روپے کلو، امرود ڈیڑھ سے دو سو روپے کلو، تربوز ڈیڑھ سے دو سو روپے کلو اور کھجور اچھی نو سو سے ایک ہزار روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ مافیا کو عوام کے بائیکاٹ سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اُن کا فروٹ سرد خانوں میں محفوظ پڑا ہے، جہاں وہ کئی ماہ تک یوں ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔
اب تصویر کے دوسرے رُخ کی جانب آتے ہیں۔ فرض کریں کیلا دو سو روپے درجن، اچھا کینو چار سو روپے درجن، سیب تین سو روپے کلو، اَنار چھے سو روپے کلو، امرود ایک سو روپے کلو ہو جائیں، تو کیا دیہاڑی دار اور عام مزدور طبقہ انھیں خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے؟ جواب نفی میں آئے گا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
فطرت اور ہماری صحت
دل کی بیماریوں میں پھل اور سبزیاں مفید
سبزیاں صحت مند زندگی کی علامت
ہمارے ہاں مڈل کلاس کو دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ غریبوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ یقین جانیں پھل کھانا غریب آدمی کے لیے اس دور میں بہت بڑی عیاشی ہے۔ آپ پھلوں کے ریٹ نصف کر دیجیے۔ غریب آدمی پھر بھی نہیں خرید سکے گا۔ غریب آدمی کو پھلوں کے بائیکاٹ سے کچھ نہیں لینا دینا۔ یہ بائیکاٹ دراصل اُن امیروں کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو خود ناجائز منافع خوری میں ملوث ہیں۔ کپڑا فروش، منیاری والے، کاسمیٹکس کی اشیا بیچنے والے، جیولری فروش، کریانہ مرچنٹ، منشیات فروش، میڈیکل سٹوروں والے، راشی افسران و سرکاری ملازمین اور دیگر کاروباروں سے وابستہ لوگ پھلوں کی بائیکاٹ مہم کا حصہ ہیں۔ کیوں کہ یہی پھل کھانا افورڈ کر سکتے ہیں۔کیا کبھی کسی نے ادویہ کی روز افزوں بڑھتی قیمتوں کے خلاف اس طرح ملک گیر احتجاج کا سوچا ہے؟ آئے روز گھی، چینی دالوں، سبزیوں اور آٹے کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے پر کوئی احتجاجی مہم کبھی چلی ہے؟ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہ غریب کی روزمرہ ضرورت کی چیزیں ہیں۔ سب منافع خوروں نے غریبوں کو لوٹنے کے لیے انجمن امدادِ باہمی بنا رکھی ہے۔ غریب کے استعمال کی چیزیں سستی کرنے کی مہم کوئی نہیں چلائے گا۔ غریب خود بھی نہیں چلا سکے گا کہ مزدوری پر جا کر کچھ کمائی کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرے یا احتجاج کرے۔
پھل فروشی سے زیادہ تر غریب طبقہ ہی وابستہ ہے جو روزانہ منڈی سے پھل لا کر ریڑھی، تھڑے یا پھٹے پر سجا کر بیچتا ہے اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ اسے پانی نکالنے کے لیے روزانہ کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ وہ خریدے گئے پھل کی قیمت میں معمولی منافع شامل کر کے بیچتا ہے۔ پھلوں کی مہنگائی سے اس دیہاڑی دار پھل فروش کا کوئی تعلق نہیں۔ اسے ان سیٹھ لوگوں سے مہنگا پھل ملتا ہے، جن کو انتظامیہ، پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور پرائس مجسٹریٹ پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ پھلوں کے بائیکاٹ سے مافیا کا کچھ نقصان نہیں ہوتا، بلکہ غریب پھل فروش مارا جاتا ہے۔
یوں دیکھا جائے تو اس مہم سے پھل بیچنے والے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ ضرورت غریب کی آمدن بڑھانے اور تمام اشیائے صرف کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ہے۔ صرف پھلوں کا بائیکاٹ کر کے آپ مہنگائی کو کم یا ختم نہیں کرسکتے۔
امیر کا پیسا بھی امیر کی جیب میں جا رہا ہے اور غریب کا پیسا بھی امیر کی جیب میں جا رہا ہے۔ مدد غریبوں کی کریں، امیروں کی نہیں۔ اس دفعہ رمضان میں ہم اپنی گروسری خریدنے نکلیں، تو کسی بڑی گروسری شاپ، کسی بڑے مال، یا سپر سٹور سے خریدنے کے بجائے اگر محلے کی کسی چھوٹی دُکان سے خرید لیں جس دُکان پر گاہک بہت کم آتے ہوں، تو شاید ہمارے اس عمل کی وجہ سے ایک خاندان کی عید اچھی گزر جائے۔ یہ ایک سفید پوش کی مدد ہو گی۔
اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 20 یا 25 ہزار کی گروسری پر اس نے دو چار ہزار زیادہ لے لیے ہیں، تو اس میں اس کی اعانت کی نیت کرلیں۔ ان شاء اللہ یہ بہترین صدقہ ہو گا۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی دُکان پر تو وہ سامان ہی نہیں ہوگا، جو بڑے اسٹورز سے مل جاتا ہے، تو کوئی بات نہیں ہم اسے اپنی گروسری کی لسٹ بنا کر دے دیں اور بعد میں آ کر اس سے سامان لے جائیں۔ یا کم از کم اس کی دُکان پر جو سامان دست یاب ہے، وہ تو ہم اس سے لے ہی لیں۔
اللہ کے یہاں مستحق کو تلاش کر کے اس کی مدد کرنے کا بہت ثواب ہے۔ اور یہ عمل اِن شاء اللہ اسی زمرے میں آئے گا۔ رمضان میں نفلی عبادت کا اجر فرضوں کے برابر ملتا ہے۔ جو لوگ غربا میں راشن تقسیم کرتے ہیں، وہ اگر کیش اینڈ کیریز یا کسی بڑے ہول سیلر سے راشن کے پیکیج خریدنے کے بجائے انھی پیکیجوں کا آرڈر کسی چھوٹے دُکان دار کو دیں، تو اس طرح کرنے سے ایک سفید پوش (دُکان دار) کو بھی نفع ہو گا اور غربا میں راشن بھی تقسیم ہو جائے گا۔
تھوڑا نہیں، پورا سوچیے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










