(زیرِ نظر تحریر دراصل ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب کے پشتو مضمون ’’د باچا خان سرہ زما د سفر یاداشت‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے، جو ماہنامہ ’’لیکوال‘‘ اکتوبر، نومبر 2023ء میں شائع ہوا ہے، مترجم)
1986ء میں، مَیں، خورشید اور حبیب اللہ جو کراچی یونی ورسٹی میں میرے ہم جماعت تھے، پہلے سمسٹرکے خاتمے کے بعد دوسرے سمسٹر تک کی چھٹیوں میں گھر آئے ہوئے تھے۔ مارچ 1986ء میں ہماری یہ چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔ واپسی کے لیے ہم نے خیبر میل ریل گاڑی میں سلیپر کی ٹکٹیں لی تھیں۔ روانہ ہونے سے پہلے جب ہم ریل گاڑی کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ باچا خان کو وہیل چیئر کے ذریعے لایا گیا۔ اُن کے ساتھ اُن کے بیٹے ولی خان، اُس وقت کے نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری عبدالخالق خان اور اِسی پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات فرید طوفان بھی تھے۔ ہمیں اُس وقت پتا چلا کہ اِسی ریل گاڑی میں باچا خان بھی کراچی جا رہے ہیں۔
سجاد احمد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sajjad-ahmad/
ہمارے لیے اتفاقی طور پر، ریلوے اسٹیشن بونیر کے بلو خان گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے قریبی ساتھی بہروز خان (جو کہ امریکہ میں ڈیوہ ریڈیو کے ساتھ کام کرتے ہیں) بھی آئے۔ 25 اگست 2023ء کو بہروز خان نے وٹس ایپ پر باتوں میں بتایا کہ مجھے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) سندھ کے صوبائی صدر قاسم خان نے خبر دی تھی کہ بابا (باچا خان) کراچی آرہے ہیں۔ اِس بنا پر مَیں پشاور آیا کہ کراچی تک کا یہ سفر اُن کے ساتھ ہی کروں۔ اُس نے بتایا کہ ہم 20 مارچ 1986ء کو پشاور سے روانہ ہوئے تھے۔ بہروز خان نے باچا خان اور ہمارے پشاور سے کراچی تک کے سفر کی جو تاریخ بتائی اور جیسا کہ بعد میں ذکر آئے گا قاسم جان نے ماہنامہ ’’پُختون‘‘ کے جنوری 2020ء میں اپنی تحریر کردہ مضمون میں سندھ اور کراچی میں باچا خان کی مصروفیات اور جلسوں کی جو تاریخیں لکھی ہیں، تو وہ ایک دوسرے سے تضاد رکھتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کراچی یونی ورسٹی کے زمانۂ طالب علمی میں، مَیں جن نوٹ بُکس میں اپنے لیے نوٹس لیا کرتا تھا، اُن کومَیں ایک کتاب کا نام ڈھونڈ نے کے لیے دیکھ رہا تھا، تو اُن میں 18 مارچ 1986ء کو اور اُس کے بعد کے دنوں کے لیے گئے نوٹس اور لیکچرز کی اہم باتیں تحریر ہیں۔ اِس طرح اِس موڑ پر ہمارا اور باچا خان کے پشاور سے ریل گاڑی میں سفر کی تاریخ میں تضاد سامنے آیا۔
اس تضاد کی وجہ سے صحیح تاریخ معلوم کرنے کی خاطر مَیں 3 اکتوبر 2023ء کو پشاور میں صوبائی آرکایوز گیا، جہاں مَیں نے اُس وقت شائع ہونے والے اخبارات ’’فرنٹیئر پوسٹ‘‘، ’’مشرق‘‘ اور ’’شہباز‘‘ ملاحظہ کیے۔ ’’مشرق‘‘ اور ’’شہباز‘‘ اخبارات سے واضح ہوگیا کہ باچا خان اور ہم 13 مارچ 1986ء کو رات ساڑھے نو بجے پشاورسے ریل گاڑی خیبر میل میں روانہ ہوئے تھے اور 15 مارچ 1986ء کو کراچی پہنچے تھے۔
حسنِ اتفاق دیکھیے کہ ہم جس سلیپر ڈبے میں ریل میں سفر کررہے تھے، باچا خان بھی ہمارے اُسی ڈبے میں تھے اور یوں ہم نے پشاور سے کراچی تک کا یہ سفر ،جو دو راتوں اور ایک دن پر محیط تھا، ایک ساتھ کیا تھا۔ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سندھ کے صوبائی صدر قاسم جان نے ماہنامہ ’’پُختون‘‘ کے جنوری 2020ء کے شمارے میں شائع شدہ مضمون ’’مارچ 1986 کی د باچا خان بابا د صوبہ سندھ دورہ‘‘ میں صفحہ نمبر 33 پر لکھا ہے کہ ’پشاور سے کراچی تک کا یہ سفر بابا نے ریل گاڑی کی سی کلاس میں کیا تھا۔‘ میرے خیال میں یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہیں ہوگا کہ یہ سفر باچا خان نے ریل گاڑی خیبر میل کی سی کلاس کی بجائے سلیپر کلاس میں کیا تھا۔
باچا خان تو سلیپر کلاس میں سفر سے انکار کر رہے تھے لیکن اِس سفر کے وقت اپنی ضعیف العمری اور صحت کی وجہ سے اتنے ناتواں تھے کہ سی کلاس میں اتنا لمبا سفر کرنے کے قابل نہیں تھے۔ اِس لیے ولی خان اور ساتھیوں نے اُسے سی کلاس کے بجائے سلیپر میں سفر کرنے پر آمادہ کیا۔ اِس طرح اُ س نے کراچی کا یہ سفر خیبر میل میں سلیپر میں کیا جس کے زندہ گواہ آج بھی مَیں، خورشید، بہروز خان اور فرید طوفان ہیں۔ اِس سفر میں باچا خان کے ساتھ پارٹی کی جانب سے عبدالخالق خان اور فرید طوفان بھی تھے، اِس لیے جب گاڑی روانہ ہوئی تو ولی خان واپس ہوئے۔
گاڑی کے سلیپر کلاس ڈبے میں باچا خان کے ساتھ ہمارے کمرے علاحدہ تھے۔ باچا خان کے ساتھ اُن کے کمرے میں عبدالخالق خان اور فرید طوفان تھے، لیکن جب بھی موقع ہوتا اور وہ جاگ رہے ہوتے، تو ہم اپنا زیادہ تر وقت اُن کے ساتھ گزارتے۔ سفر میں گاہے گا ہے اسٹیشنوں میں لوگ باچا خان کے استقبال اور اُن کے دیدار کے لیے کھڑے ہوتے تھے، یہ تعداد صوبہ سندھ میں بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اِس کے اثر کو کم کرنے کے لیے اُس وقت کی حکومت نے یہ انداز اپنایا کہ جس اسٹیشن پر استقبالیوں کی تعداد زیادہ ہوتی، گاڑی اُس سے اگلے اسٹیشن پر کھڑی کی جاتی۔اِس طرح سواریاں اپنے اصل اسٹیشن کے بجائے دوسرے اسٹیشن پر اُتار دی جاتیں اور اِس وجہ سے اُن کو بھی ایذا دی جاتی تھی۔
اِس سفر کے دوران میں صوبہ پنجاب میں جب مختلف اسٹیشنوں پر اخبارات کے نمایندے باچا خان سے ملنے آتے اور اُن سے مختلف قسم کے سوالات کرتے، تو وہ اُن کو جواب دینے سے احتراز کرتے۔ جواباً اتنا کہتے کہ جو باتیں اور جواب مَیں دینا چاہتا ہوں، وہ نہ آپ چھاپتے ہیں اور نہ چھاپ سکتے ہیں۔ جب ملتان کے اسٹیشن پر ایک صحافی باچا خان سے ملنے آیا اور اُس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق روزنامہ’’ نوائے وقت‘‘ سے ہے، تو اس پر باچا خان کا اُس کے ساتھ رویہ بالکل بدل گیا۔ باچا خان نے نہ صرف اُس کے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کیا، بلکہ جب اُس نے ریشمی رومال تحریک کے حوالے سے سوال کیا، تو اُنھوں نے سخت انداز اور الفاظ میں اُس صحافی سے کہا کہ مجھے اِس حوالے سے کوئی پتا نہیں۔ اِس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ باچا خان روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘سے کتنے خفا تھے، بلکہ اُس سے نفرت کرتے تھے۔
باچا خان، عبدالخالق خان کو جج صاحب کَہ کر پکارتے تھے۔ بہروز خان کے مطابق جب عبدالخالق خان نے باچاخان سے پوچھا کہ آپ نے افغانستان میں بہت زیادہ عرصہ گزارا ہے، تو آپ کے خیال میں وہاں پختون ہیں کہ نہیں؟ اِس کے جواب میں باچا خان نے کہا کہ جج صاحب! وہاں آپ اور ولی خان جیسے پختون تو ڈھیر سارے ہیں، لیکن جن کو مَیں پختون کہتا ہوں، وہ نہیں ہیں۔ یادرہے کہ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب افغانستان میں’’ انقلابِ ثور‘‘ آیا تھا۔ اِس جواب سے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ باچا خان افغانستان کے اُن دنوں کے پختونوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔
جب دو راتوں اور ایک دن کی سفر کے بعد 15 مارچ 1986ء کو دَیر سے صبح کوئی 9 بجے ہماری سواری کراچی پہنچی، تو کراچی کے صدر ریلوے اسٹیشن پر لوگوں کا جمِ غفیر باچا خان کے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ پورا ریلوے اسٹیشن لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگوں کو اتنی بھیڑ دیکھ کر باچا خان نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ لوگ کیوں آئے ہیں، اور ریل گاڑی سے باہر آنے سے انکار کیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
خان عبدالغفار خان کا المیہ 
باچا خان بابا اور ولی خان بابا کی برسی پر زعما کے اثرات 
باچا خان بابا کا نظریہ وفاقیت
باچا خان بابا کی آپ بیتی کا ایک دردناک ورق 
باچا خان بابا ایک عہد کا نام 
باچا خان کا یہ دورہ اگر ایک طرف کالا باغ ڈیم کے بنانے کے خلاف اُن کی مہم کا حصہ تھا، تو دوسری طرف کراچی میں سندھی اور پختون طلبہ کے درمیان جو لڑائی ہوئی تھی، اور اُس کے نتیجے میں اُن کے درمیان جو دشمنی شروع ہوئی تھی، اُس ضمن میں اُن میں صلح کرنا بھی مقصود تھا اور جی ایم سید کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرنا بھی تھا۔ اِس وجہ سے باچا خان اُن کے مہمان تھے۔ اور اِس بنا پر اُن کی پارٹی (جیئے سندھ محاذ) کی طرف سے ڈاکٹر حمید ہ کھوڑو، ریلوے اسٹیشن باچا خان کے استقبال کے لیے آئی تھی۔ ریلوے اسٹیشن میں پختونوں کی اتنی بھیڑ میں، وہ پسینے سے شرابور، ریل کے اُس ڈبے تک پہنچی اور اوپر چڑھ آئی جس میں باچا خان تھے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ باچا خان نے پشاور میں ریل گاڑی کے سلیپر کلاس میں سفر کرنے سے انکار کیا تھا، لیکن بالآخر اُسے اِس پر راضی کیا گیا، اِس طرح اُس نے کراچی میں اِس وجہ سے گاڑی سے اُترنے سے انکار کیا کہ یہ اتنے ڈھیر سارے لوگ اُس کے استقبال کے لیے کیوں آئے ہیں۔ لیکن کافی کوشش اور منت سماجت کے بعد اُسے گاڑی سے اُترنے پر آمادہ کیا گیا اور یوں پشاور سے کراچی تک کا یہ سفربہ خیر و عافیت اختتام پذیر ہوا۔
اِس سفر کے بعد باچا خان، جی ایم سید کے مہمان کے طور پر، حمیدہ کھوڑو کے ساتھ چلے گئے اور ہم کراچی یونی ورسٹی کے ہاسٹل میں۔ کراچی میں باچا خان کی دوسری مصروفیات، افہام و تفہیم اور استقبالیوں وغیرہ کے حوالے سے مَیں کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اِس لیے کہ یہ سب کچھ میرے سامنے نہیں ہوا تھا۔ اُس کی تفصیل پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اُس وقت کے سندھ کے صوبائی صدر قاسم جان نے ماہنامہ ’’پُختون‘‘ کے جنوری 2020ء کے شمارے میں شائع شدہ تحریر کے صفحات 33 سے 37 تک میں دی ہے۔ البتہ مَیں اُن دو جلسوں کے ضمن میں مختصراً ذکر کروں گا جس میں، مَیں بذاتِ خود موجود تھا۔
ان میں سے پہلا جلسہ کراچی کی اُس وقت کی سبزی منڈی میں 22 مارچ کو ہوا تھا۔ (قاسم جان نے پہلے ذکر شدہ اپنے مضمون میں اِس جلسے کی تاریخ 21 مارچ بتائی ہے، لیکن روزنامہ’’شہباز‘‘ کی خبر کے مطابق یہ جلسہ 22 مارچ 1986ء کو ہوا تھا۔) یہ جلسہ اصل میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے باچا خان کے اعزاز میں استقبالیہ کے طور پر منعقد کیا گیا تھا۔ یہ جلسہ سہ پہر کو ہو رہا تھا۔ اِس میں شرکت کی خاطر لوگوں کی ایک بڑی تعداد آئی ہوئی تھی۔ اِس استقبالیے یا جلسے کے اسٹیج سیکرٹری کی ذمے داری عثمان خٹک کے سپرد کی گئی تھی اور اِس وجہ سے وہ یہ ذمے داری نبھا رہا تھا۔
جلسہ عصر کے وقت ہونا تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو باچا خان ابھی نہیں آئے تھے۔ عصر کی نماز کا وقت ہو رہا تھا، تو مَیں جلسہ گاہ کے آخری سرے پر مسجد میں نماز ادا کرنے گیا۔ اِس میں ایک انہونی یہ ہوئی کہ جب مَیں نماز سے فراغت کے بعد مسجد سے نکلا، تو جلسہ کی کارروائی شروع ہونے والی تھی۔ عثمان خٹک نے اسٹیج سے لاؤڈ اسپیکر پر میرا نام لے کر اعلان کیا کہ مَیں آکر تلاوتِ قرآنِ مجید سے جلسے کا آغاز کروں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اُنھوں نے مجھے اِس حوالے سے پہلے سے نہیں بتایا تھا کہ مَیں اِس موقع پر تلاوت کروں گا۔ مَیں نے یہ اعلان جلسہ گاہ کے دوسرے سرے پر سنا۔ وہاں سے اُس وقت میرے لیے اسٹیج پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ عثمان خٹک نے دوبارہ اعلان کیا کہ مَیں موقع پر موجود نہیں ہوں۔ لہٰذا ایک دوسرے فرد کو تلاوتِ قرآنِ مجید کے لیے اسٹیج پر بلایا۔ سبزی منڈی کے اِس جلسے میں یہ لطیفہ یا انہونی ہوئی۔ اِس جلسے کے موقع پر باچا خان نے اپنی تقریر میں پنجابی استعمار اور اِس سے گلو خلاصی کے لیے کیا کچھ کرنا چاہیے کے حوالے سے باتیں کیں۔ دوسری باتوں کے علاوہ اُنھوں نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بھی باتیں کیں۔ اس کے بننے کی مخالفت کی اور لوگوں کو اِس حوالے سے بیدار ہونے کی بات بھی کی۔ اِس جلسے میں باچا خان کی باتوں کی کچھ تفصیل قاسم جان کے پہلے ذکر شدہ مضمون میں موجود ہے۔
23 مارچ (یہ تاریخ قاسم جان کی اِس تحریر سے لی گئی ہے۔ 24 مارچ کو اخبارات نہیں چھپے تھے، اِس لیے کہ 23 مارچ کو یومِ پاکستان، یعنی 23 مارچ کی وجہ سے، اخباری خبر نگاروں کی چھٹی تھی۔ تو اخبارات میں اِس حوالے سے میری نظر سے کچھ نہیں گزرا) کو اُس وقت کے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کی تنظیم کی طرف سے باچا خان کے لیے اُس وقت کے بنارس چوک (جسے بعد میں باچا خان چوک کا نام دیا گیا اور اب بھی اُس کا یہی نام ہے) میں ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اِس جلسے میں بھی کافی بھیڑ تھی۔ اِس موقع پر باچا خان نے اپنی تقریر میں اپنی موٹی موٹی اور اہم باتیں کیں، جن میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت بھی شامل تھی اور لوگوں کو تشدد سے اجتناب کرنے اور عدم تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی تلقین بھی تھی۔ اُنھوں نے حاضرین سے کہا کہ حقوق ایسے آسانی سے نہیں ملتے۔ اِن کے حصول کے لیے مبارزہ کرنا اور تکالیف برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اور اپنی باتوں کے ضمن میں یہ ٹپہ پڑھا کہ
کن او کچکول واخلہ فقیر شہ
پہ بے غمیٔ معشوقے چا موندلی دینہ
(یعنی اپنے مقصد کے حصول کے لیے فقیروں کا کن اور کچکول لے کر فقیر بننا پڑتا ہے۔ اِس لیے کہ معشوقوں کو بغیر غم اور تکلیف کے کون پاچکا ہے؟)
باچا خان کے ساتھ میرا دوسرا سفراُن کی وفات کے بعد اُن کے جنازے کے ساتھ جلال آباد (افغانستان) جانا تھا۔ جنوری 1988ء میں باچا خان کی صحت بہت خراب ہوگئی اور آخر میں وہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں داخل کیے گئے اور وہاں پر 20 جنوری 1988ء کو وفات پاگئے۔ بہت سارے دوسرے لوگوں کی طرح مَیں بھی اِسی وجہ سے پشاور میں تھا۔ اور جب 22 جنوری کو اُن کی وصیت کے مطابق اُن کی میت کو جلال آباد سپردِخاک کرنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا، تو مَیں بھی ایگریکلچر یونی ورسٹی پشاور کے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھیوں کے ساتھ ایگریکلچر یونی ورسٹی کی گاڑی میں روانہ ہوا۔ اس سفر کے دوران میں، مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ راستے میں افغانستان کے ایک گاؤں میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کے مذہبی موضوعات پر لکھے گئے کتابچے یا لٹریچر بھی باچا خان کے جنازے کے ساتھ جانے والی گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے افراد کو گاڑیوں کے اطراف کی جانب سے دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
جلال آباد پہنچنے پر گاڑیاں ایک بڑے میدان میں کھڑی کر دی گئیں اور لوگ جنازے کے ساتھ باچا خان کی قبر پر چلے گئے۔ افغانستان کے اُس وقت کا صدر ڈاکٹر نجیب اللہ بھی آیا ہوا تھا اور راستے میں استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ جب باچا خان کی میت کے دفنانے کی رسومات ادا کی جا رہی تھیں، تو اعزازاً توپ کے گولے داغے گئے۔ توپوں کے ان گولوں کے داغنے کے دوران میں جنازے کے ساتھ آئی ہوئی گاڑیوں میں دھماکے کیے گئے جو اُس بڑے میدان میں کھڑی تھیں۔ یہ دھماکے توپوں کے گولے داغنے کے ایک ساتھ ہوئے۔ اِس وجہ سے باچا خان کی قبر کے قریب والے لوگوں کواِن کا خاص احساس نہیں ہوا۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ توپوں کے گولے داغنے کی آوازیں ہیں۔ دھماکوں کی تھوڑی دیر بعد اِن کی سرگوشی پھیل گئی لیکن جب لوگ تدفین کے بعد واپس گاڑیوں کے پاس آئے، تو اصل صورتِ حال سے آگاہ ہوئے۔
اِن دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کے حوالے سے بعض لوگ بڑی مبالغہ آرائی کرتے ہیں، لیکن اِن دھماکوں میں زیادہ لوگ اِس وجہ سے ہلاک یا زخمی نہیں ہوئے تھے کہ یہ دھماکے اُس وقت کیے گئے تھے جب زیادہ تر لوگ باچا خان کے تابوت کے ساتھ گئے ہوئے تھے اور اُن کی قبر کے پاس تھے اور وہاں دھماکوں کے مقام پر موجود نہیں تھے۔ اِن دھماکوں میں ہلاک یا زخمی ہونے کا نقصان اُن لوگوں کا ہوا تھا جو اُن گاڑیوں کی جگہ میں تھے اور اُن گاڑیوں کے پاس تھے جن میں وہ دھماکے کیے گئے تھے۔
اخبار ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے خبر نگار کی اُسی دن کی رپورٹ کے مطابق اِن دو بڑے دھماکوں میں کم از کم 8 افراد قتل کیے گئے تھے۔ تاہم وہ اِسی رپورٹ کے دوسرے پیراگراف میں یہ بھی بتاتا ہے کہ بہت سارے افراد زخمی کیے گئے اوربعض رپورٹوں کے مطابق اِس میں 18 افراد تک مارے گئے ہوں گے۔ ’’دی فرنٹیئر پوسٹ ‘‘اخبار کی خبر کے مطابق کم از کم 10 افراد کی موت اور دوسرے ڈھیر ساروں کے زخمی ہونے کا خدشہ تھا۔ اِسی خبر کے مطابق جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد اور پہچان طویل مدت تک معلوم نہ ہوگی، اِس لیے کہ کابل کے صاحبانِ اختیار اِس حوالے سے معلومات دینے میں ہچکچا رہے تھے۔ بہروز خان کے مطابق اِن دھماکوں میں کوئی 17 افراد مرگئے تھے۔ تاہم حکومتِ خیبر پختون خوا کی ویب سائٹ پر انگریزی میں ’’خان عبد الغفار خان‘‘ کے زیرِ عنوان تحریر کے مطابق اِن دھماکوں میں پندرہ افراد مرگئے تھے۔ (اس ویب سائٹ پر یہ معلومات 2 اکتوبر 2023ء کوملاحظہ کی گئیں۔)
یہاں پر اِس بات کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ جنازے کے ساتھ جانے والے ہزاروں لوگوں کے لیے کھانے کا باقاعدہ انتظام تو ممکن نہیں تھا، تاہم افغانستان کی حکومت نے یہ انتظام کچھ اِس طور کیا تھا کہ جن گاڑیوں میں لوگ گئے تھے، تو اُن میں اُن کے لیے روٹی کے ساتھ گاڑیوں کے سیٹوں پر اُبلے ہوئے آلو اور گوشت رکھا ہوا تھا۔ کم از کم ہم جس گاڑی میں گئے تھے، تو اُس میں ہر فرد کی نشست پر مذکورہ اشیا رکھ دی گئی تھیں۔ یوں اُنھوں نے اُن ہزاروں لوگوں کے کھانے کی ضرورت پورا کرنے کا بندوبست اِس طریقے سے انجام دیا تھا۔
افغان حکومت نے اِس موقع پر دوسرا کام یہ کیا تھا کہ باچا خان کے حوالے سے عبداللہ بختانی کی کتابچے ’’دَسولی او آزادیٔ قہرمان‘‘ اور ’’دَ بابا مشالونہ‘‘جنازے کے ساتھ جانے والے افراد کو پہنچانے کی خاطر اُن کی گاڑیوں میں اُن کی سیٹوں پر رکھے تھے۔ جن کی کاپیاں آج بھی میرے ساتھ موجود ہیں۔
اِس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ باچا خان کی تدفین کی مراسم کے وقت مَیں نماز کے لیے جلال آباد شہر گیا۔ اُن دنوں پاکستان میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ افغانستان میں مساجد کو بند کر دیا گیا ہے اور کوئی اِن میں نماز ادا نہیں کرسکتا۔ جلال آباد شہر کے بازار تو اُس دن بالعموم بند تھے، لیکن اُن میں اِکا دُکا افراد موجود تھے اور روٹیوں کے تندور بھی کھلے تھے اور اُن میں روٹیاں پکائی جا رہی تھیں۔ مَیں نے ایک فرد سے مسجد کے بارے میں پوچھا، تو اُس نے سامنے کی مسجد کا راستہ دکھایا۔ جب مَیں مسجد گیا، تو دروازہ کھلا تھا۔ اُس مسجد میں بائیں طرف ’’توت‘‘ کا ایک درخت تھا اور پانی کے پائپوں میں پانی موجود تھا۔ مَیں نے اُس مسجد میں وضو بھی کیا اور نماز بھی ادا کی۔ اُس پہر اُس مسجد کا دروازہ کھلا ہوا پانا اور اُس میں پانی کی موجودگی اِس بات کا ثبوت تھا کہ افغانستان میں مساجد کو بند کرنے کا جو پروپیگنڈا کیا جاتا رہا تھا، وہ جھوٹا تھا۔
مسجد سے واپسی پر مَیں نے بازار میں ایک تندور سے بڑی سرخ افغانی روٹی (سرہ ڈوڈئی) خریدی جو اُس وقت مجھے ساڑھے بارہ افغانی کے عوض دی گئی۔ اِس روٹی کی قیمت اُسی وقت پاکستان کی نسبت اِس لحاظ سے بہت زیادہ تھی کہ افغانی کی قدر بہت کم تھی، جیسا کہ آج کل پاکستانی روپے کی ہے۔ مجھے صحیح طور پر یاد نہیں کہ اُن دنوں ایک پاکستانی روپے کتنے افغانیوں کے برابر تھی، لیکن اتنا تو یاد ہے کہ باچا خان کے جنازے کے ساتھ افغانستان جانے سے ایک روزقبل مَیں نے ایک سو پاکستانی روپے بہ طورِ احتیاط افغانی کرنسی میں تبدیل کیے تھے، تو اُن کے بدلے میں سیکڑوں افغانی دیے گئے تھے۔ اُس افغانستان کی افغانی آج پاکستانی روپے سے قدر میں زیادہ ہے۔
قرآنِ مجید کی سورۃ ال عمران کی آیت نمبر 140میں اللہ تعالا فرماتے ہیں کہ یہ دن یا حالات ہم لوگوں کے درمیان میں تبدیل کرتے رہتے ہیں…… یا پشتو کی ضرب المثل ہے کہ ’’کلہ دَ ابئی وار او کلہ دَ دادا‘‘ (یعنی کبھی ماں کی باری اور کبھی باپ کی)۔
باچا خان کو سپردِخاک کرنے کے اور اُس موقع پر تقاریرکے بعد جب لوگ واپس آنے کی خاطر اُس جگہ آئے جہاں اُن کی گاڑیاں کھڑی تھیں، تو درجِ بالا ذکر شدہ دھماکوں سے آگاہ ہوئے۔ جن کی گاڑیاں سلامت تھیں یا واپس آنے کے قابل تھیں، وہ اُن میں سوار ہوئے اور جن کی اپنی گاڑیاں مکمل طورپر تباہ ہوئی تھیں اور یا واپس آنے کے قابل نہیں رہی تھیں، تو وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ گاڑیوں میں سوار ہوئے اور اِس طرح شام کے قریب جلال آباد سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔
واپسی کے وقت ایک طرف رات کی تاریکی تھی اور دوسری طرف گاڑیوں کی زیادہ تعداد اور سڑک کی خستہ حالی تھی جس کی وجہ سے تیز رفتاری سے آنا ممکن نہیں تھا۔ اِس وجہ سے ہم رات بہت دیر کو پشاور پہنچے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔