حالیہ انتخابات کے نتیجے میں کسی سیاسی جماعت کو حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت نہیں مل سکی۔ یہ بات تو طے ہے کہ نئی آنے والی حکومت مخلوط ہوگی۔ غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت ہی وجود میں آئے گی۔ دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ سر جوڑ کر کسی مشترکہ فارمولے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری دونوں ہی نہایت منجھے ہوئے اور زیرک سیاست دان ہیں۔ چھوٹی پارٹیوں کی بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کو ترجیح دیں گے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ منتخب آزاد ممبرانِ اسمبلی کی تعداد 90 کے قریب ہے۔ یاد رہے کہ آزاد ممبران کی تعداد 101 بتائی جا رہی ہے، مگر سبھی آزاد حیثیت میں جیتنے والے ممبران پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نہیں۔ اُن میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو پی ٹی آئی کے مقابلے میں جیت کر آئے ہیں۔ بیرسٹر گوہر علی خان بار بار ایک ہی بات کیے جا رہے ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ پر اُن کا حق ہے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف نے وکٹری تقریر بھی کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر سٹیک ہولڈر جماعتوں سے اُن کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ مقتدرہ اس وقت تک تو پی ٹی آئی کو برسرِ اقتدار نہیں دیکھنا چاہتی، جب کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اپنے موقف پر سختی سے ڈٹی ہوئی ہے۔
ایک اور ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ شیخ روحیل اصغر کے مقابلے میں جیتنے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار وسیم قادر نے مسلم لیگ ن کو جوائن کر لیا ہے۔ پتا چلا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ قریباً 20 ایم این ایز مزید ایسے ہیں جو وسیم قادر بننے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ مبینہ طور پر اُنھوں نے پی ٹی آئی لیڈرشپ کو حلف نامے اور پیشگی استعفے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ 20 ایم این ایز انڈرگراؤنڈ چلے گئے ہیں۔ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سے جس کا پلڑا بھاری دیکھیں گے، اپنا وزن اُدھر ڈال کر بہتر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ جناب آصف زرداری نے پی ٹی آئی کے 30 سے زاید ایم این ایز کے ساتھ رابطہ کیا ہے، مگر اُنھوں نے کسی بھی قیمت پر بکنے سے انکار کر دیا ہے۔ بکنے سے پہلے سبھی خود کو ناقابلِ فروخت اور اُصول پرست ظاہر کرتے ہیں۔ مطلوبہ قیمت مل جائے، تو درجنوں جواز گھڑ لیے جاتے ہیں۔ فی الحال دھند چھائی ہوئی ہے۔ پردے کے پیچھے بہت کچھ طے ہو چکا ہے اور کچھ طے ہو رہا ہے۔
وسیم قادر کی بے وفائی کی وجہ سے پی ٹی آئی ورکروں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اتوار کی شام ورکروں نے وسیم قادر کے گھر کے باہر بہت بڑے احتجاج کا پروگرام بنایا تھا، مگر عین وقت پر حماد اظہر نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ورکروں کو وسیم قادر کے گھر کی طرف جانے سے روک دیا، اور یہ کہا کہ اگر احتجاج کرنا بھی ہے، تو وسیم قادر کے گھر سے دور رہیں۔ لگتا ہے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے وقت سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ قبل ازیں ’’آر اُو آفسز‘‘ کے سامنے احتجاج کرنے سے بھی روکا گیا تھا۔ پی ٹی آئی 9 مئی گزیدہ ہے۔ اس کی لیڈرشپ کو اندازہ ہے کہ شرپسند عناصر احتجاجی ہجوم میں گھس کر سانحۂ 9 مئی کو دہرا سکتے ہیں۔ وہ اب پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مخصوص نشستوں کا حصول
انتخابات قومی اُمنگوں کو زباں عطا کرنے میں ناکام
قومی حکومت تشکیل دی جائے
کیا من پسند افراد کی جیت مسائل کا حل ہے؟
نگران حکومت کا عوام پر آخری وار
اس وقت ملک بھر میں بے یقینی کی کیفیت چل رہی ہے۔ عوام الیکشن کے بعد بھی دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر عجیب طوفان مچا ہوا ہے۔ ہر کوئی سقراط اور بقراط بنا ہوا ہے۔ نئی نئی کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں۔ انتخابات کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے، شکوک و شبہات کو تقویت مل رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں کا مشترکہ حریف عمران خان ہے، اسی لیے دونوں کا ٹارگٹ بھی وہی ہے۔ جناب آصف زرداری اور میاں نواز شریف کبھی نہیں چاہیں گے کہ عمران خان دوبارہ حکومت بنا لیں۔ موجودہ صورتِ حال ایسی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بننا انتہائی دشوار ہے۔ مقتدرہ اگر نہ چاہے گی، تو کوئی چھوٹی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کے قریب بھی نہیں پھٹکے گی۔ ایسے میں اپنے 90 ممبران کو لے کر پی ٹی آئی کا حکومت بنانا ناممکن ہے۔ ابھی یہ بھی یقینی نہیں کہ وہ 90 ایم این ایز آخر تک پارٹی کے ساتھ رہتے بھی ہیں یا نہیں؟ اگر نواز شریف اور زرداری باہم مشورہ کرکے صدرِ مملکت سے کَہ دیں کہ وہ بیرسٹر گوہر خان کو حکومت بنانے کی دعوت دے دیں۔ اس کے بعد آپ اندازہ لگا لیں کہ گوہر علی خان کی حالت کیا ہو گی؟ وہ اپنی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ایم این ایز کہاں سے لائیں گے اور اعتماد کا ووٹ کیسے حاصل کر پائیں گے؟جب ایسا کرنے میں ناکام ہوجائیں گے، تو لامحالہ صدرِ مملکت پھر نواز شریف کو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔ تب تک دونوں جماعتیں حکومت سازی کا فارمولہ بھی سکون کے ساتھ طے کر لیں گی۔ پی ٹی آئی کے ورکر اور لیڈرشپ کا شوق بھی پورا ہو چکا ہو گا اور ان کے مزید احتجاج کا جواز بھی ختم ہو جائے گا۔
یاد رکھیے! عمران خان کبھی نواز شریف یا زرداری کے ساتھ کولیشن گورنمنٹ نہیں بنائیں گے۔ کیوں کہ یہی دو ان کے اصل حریف ہیں۔ جس دن عمران خان ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بیٹھ گئے، اُسی دن ان کی مقبولیت ختم ہو جائے گی۔ وہ ہیرو سے زیرو بن جائیں گے۔ اسی طرح وقتی اقتدار کی خاطر زرداری اور نواز شریف میں سے کوئی بھی عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا کر ان کی وقتی طور پر ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو سہارا نہیں دے گا۔ کیوں کہ دوسری صورت میں بھی اقتدار انھی دونوں جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس ہی آنا ہے۔
ان حالات میں ملک سے افراتفری، بے یقینی اور سیاسی پولرائزیشن کو ختم کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت سازی کی دعوت دے کر اس کا شوق پورا کر دیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔