سیٹھی ہاؤس اپنے انوکھے طرزِ تعمیر کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ لہٰذا اس شاندار عمارت کو دیکھنے کی حسرت پیدا ہوئی۔ چھے نومبر صبح سویرے رختِ سر باندھ کر سیٹھی ہاؤس کی یاترہ کے لئے نکل پڑا۔ پشاور پہنچ کر گوگل میپ کی مدد سے سیٹھی ہاؤس کا راستہ معلوم کیا۔ ٹیکسی والے کو اس تاریخی عمارت کے بارے میں بالکل علم نہیں تھا۔ پشاور کے لاہوری دروازہ پر اتر کر کچھ دیر کے لئے وہاں ٹھہرا رہا۔ لاہوری دروازہ پشاور کے ان دروازوں میں سے ایک ہے جنہیں پشاور شہر کے اردگرد تعمیر کیا گیا تھا۔ پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر اب ان دروازوں کی اہمیت نہیں رہی، لیکن اس کی تاریخی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ لاہوری دروازہ سے پیدل چل کر ’’محلہ سیٹھیاں‘‘ پہنچ گیا۔ محلہ سیٹھیاں لاہوری دروازہ اور گھنٹہ گھر کے وسط میں واقع ہے۔ گھنٹہ گھر کو 1900ء میں بنوایا گیا تھا۔ بعد میں اسے "جارج گننگہام” کے نام منسوب کیا گیا۔ جارج گننگہام 1947ء میں اس وقت کے شمالی مغربی سرحدی صوبہ (اب پختونخوا) کے گورنر تھے۔ ویسے تو سارا پشاور تاریخی اعتبار سے ایک اہم شہر ہے، لیکن لاہوری دروازہ پر داخل ہوکر ہزاروں تاریخی داستانوں والا شہر "پشاور” ملے گا۔
محلہ سیٹھیاں وسیع اور پاک و شفاف گلیوں کا محلہ ہے۔ اس محلہ کے سارے گھر دو اور تین منزلہ ہیں۔ باہر سے نظر آنے والی بالکونیاں لکڑی سے تعمیر کی گئی ہیں، جن پر مختلف اور دیدہ زیب لکڑی کی کندہ کاری کی گئی ہے۔
سیٹھی خاندان روس، چین، بھارت، ایران اور افغانستان میں تجارت کے حوالے سے مشہور تھا۔ یہ خاندان بہت دولت مند تھا۔ تجارتی کاروبار کے مراکز مزار شریف، تاشقند، بخارا اور ثمرقند میں موجود تھے۔ یہ متمول خاندان ہونے کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ اسلامیہ کالج مسجد اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں کنوؤں کی تعمیر اسی خاندان نے کروائی تھی۔ محلہ سیٹھیاں میں پہلا گھر حاجی احمد گل نے 1882ء میں تعمیر کیا تھا۔ یہ گھر 14 سال کی مدت میں تعمیر ہوا تھا۔
1917ء میں روس میں انقلاب کی وجہ سے سیٹھی خاندان کی مالی طور پر تنزلی شروع ہوئی، جس کی وجہ سے یہ خاندان تجارتی کاروبار کو دوسرے ملکوں میں برقرار رکھنے میں ناکام ہوا اور پشاور شہر میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
عمدہ طرزِ تعمیر کے حامل اس محلہ میں دو درجن گھر آباد تھے، لیکن ابھی اس میں آٹھ گھر اپنے پرانے طرزِ تعمیر کے ساتھ موجود ہیں۔
محلہ سیٹھیاں، سیٹھی خاندان کا محصورہ تھا۔ اس وجہ سے محلہ کو اس کے نام سے منسوب کیا گیا۔ سیٹھی کے لفظی معنی ’’دولت مند‘‘ کے ہیں۔ بعض مؤرخین کے مطابق یہاں پر رہنے والے لوگ سیٹھی کے نام سے مشہور ہیں۔ دراصل ان کا شجرۂ نسب ’’اروڑہ‘‘ خاندان سے جا ملتا ہے۔ محلہ سیٹھیاں کے تمام گھر بخارا کے مقامی طرزِ تعمیر کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ 1968ء میں یہاں پر سکول ہوا کرتا تھا۔ بعد میں حکومتِ خیبر پختونخوا نے 2006ء میں ان گھروں کو خرید لیا جو کہ اب محکمۂ آثارِ قدیمہ و سیاحت کی زیر نگرانی ہیں۔
میری خوش قسمتی تھی کہ سیٹھی ہاؤس صبح سویرے پہنچ چکا تھا۔ سویرے یہاں پر سیاحوں کا اتنا رش نہیں ہوتا۔ مرکزی دروازہ سے متصل کمرے میں متعلقہ عہدیدار بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے تصاویر اور ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دی۔ البتہ تحقیقی آفیسر سرفراز صاحب سے فون پر بات ہوئی، جنہوں نے تصاویر اور ویڈیو بنانے کی مکمل اجازت دی اور ساتھ میں میری رہنمائی کے لئے شہباز نامی لڑکے کو بطور گائیڈ مقرر کیا۔ مرکزی دروازہ سے سیدھا گھر کے صحن میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ صحن کے عین وسط میں چشمہ بنوایا گیا ہے۔ اب اس میں بجلی کے ذریعہ پانی کی ترسیل ہوتی ہے اور ساتھ میں چار رنگوں پر مشتمل بلب، چشمے کے اندر لگوائے گئے ہیں۔ گھر میں تین تہہ خانے، بارہ کمرے، ایک ہال، چمنی خانہ اور تختِ سلیمانی قابل ذکر ہیں۔ اس گھر میں زیادہ کام لکڑی کا ہوا ہے۔ دیار سمیت چیڑھ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔
کمروں کے دروازوں پر مختلف اور دل آویز لکڑی کندہ کی گئی ہے۔ روشنی کے حصول کے لئے کھڑکیوں پر شیشے کی سجاوٹ کی گئی ہے۔ ہر کمرے کی چھت پر لکڑی سے سلسہ وار، نفیس، رنگ برنگی اور سندر اشکال نقش کی گئی ہیں۔
کمروں کے اندر محراب بنوائے گئے ہیں جس کے اندر چھوٹے چھوٹے محراب اس ترتیب سے جوڑ دیئے گئے ہیں کہ ہر محراب میں آسانی سے چراغ رکھا جا سکتا ہو۔ ہر محراب آئینہ کا بنا ہوا ہے اور اس میں دیدہ زیب پھول اور گلدستے بنوائے گئے ہیں۔ آئینہ کا استعمال اس وجہ سے ہوا ہے تاکہ چراغ کی روشنی پورے کمرے میں پھیل سکے۔
کمروں کے درمیان چمنی خانہ موجود ہے۔ چمنی خانہ وہ جگہ ہے جہاں پر آگ جلائی جاتی ہے۔ اس کے چمنی سے دیوار میں اوپر کی طرف سوراخ بنوایا گیا ہے، تاکہ آگ کا دھواں اوپر کو اٹھ سکے۔ چمنی خانہ کے ساتھ باورچی خانہ ہے جس کے اندر لکڑی کی سیڑھیوں پر چڑھ کر لکڑی ہی کی بالکونی نما جگہ بنوائی گئی ہے، جہاں کسی دور میں کھانا کھایا جاتا تھا۔ غسل خانوں میں روشندان کی جگہ گول آئینے رکھے گئے ہیں۔ سورج کی کرنیں ان آئینوں سے منعکس ہو کر غسل خانہ میں روشنی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
گھر میں تہہ خانوں سے لے کر چھت تک پانی کی ترسیل کا جدید نظام موجود ہے۔ آخری تہہ خانہ میں کنواں بنوایا گیا ہے۔ یہ کنواں اوپر کی طرف گیا ہے۔ جہاں ہر منزل پر اس کنویں کی طرف پانی کے حصول کے لئے پنگھٹ بنوایا گیا ہے۔ اس جگہ سے کنویں میں بوکا ڈال کر پانی حاصل کیا جاتا تھا۔ اس طرح ہر منزل پر اپنا اپنا پنگھٹ تعمیر ہے، جہاں بوکے کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا۔
غسل خانوں کے اندر دیوار سے چسپاں ایک ٹینکی بنوائی گئی ہے۔ اس ٹینکی میں پانی ڈالا جاتا تھا اور نیچے ایک پائپ (جو کہ پتھروں کا بنا تھا) کے ذریعہ پانی کا استعمال کیا جاتا تھا۔
تہہ خانوں کو جاتی سیڑھیاں سرخ اینٹوں سے بنوائی گئی ہیں۔ پہلے تہہ خانے میں بینک ہوا کرتا تھا۔ بینک میں سیٹھی خاندان کے پیسے رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ بینک کے ساتھ دو کمرے اور تھے۔ جہاں پر اس بینک کے عہدیدار سیٹھی خاندان کے مالی امور کی دیکھ بال پر مامور تھے۔ بینک میں لکڑی کی بڑی بڑی الماریاں بنوائی گئی تھیں۔
گائیڈ شہباز کے بقول یہاں پر اتنی رقم رکھی گئی تھی کہ یہ جگہ کم پڑ گئی۔ لہذا ساتھ ہی دوسرے کمرے کی تعمیر ہوئی۔ شہباز نے مزید بتایا کہ اس وقت انگریزوں نے کرنسی میں تبدیلی کی۔ ان لوگوں کو بتایا گیا کہ کرنسی میں تبدیلی ہوچکی ہے۔ لہذا آپ لوگ اپنی رقم کو نئی کرنسی میں تبدیل کروالیں۔ چونکہ سیٹھی خاندان کا سارا کاروبار باہر کے ممالک میں ہوتا تھا۔ لہذا ان تک یہ بات پہنچانا اور پھر ان کی واپسی میں وقت لگا۔ نئی کرنسی میں تبدیلی کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ ان کی جمع پونجی نئی کرنسی میں تبدیل نہ ہوئی اور یوں سیٹھی خاندان مالی بحران کا شکار ہوا۔
گھر میں ایک ہال کو بڑا تالا لگا ہوا تھا۔ شہباز نے بتایا کہ ہال کے اندر جانے کے لئے صرف ڈائریکٹر محکمۂ آثار قدیمہ و سیاحت سے اجازت لینا پڑے گی۔ وجہ پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ اس ہال کے در و دیوار اور الماریوں پر سونے کا کام کیا گیا ہے۔
اوپر چھت پر لکڑی سے ایک بڑا چبوترا بنوایا گیا ہے جسے "تخت سلیمانی” کہا جاتا ہے۔ سردیوں میں سیٹھی خاندان کی عورتیں تخت سلیمانی پر بیٹھ کر سورج کی تپش سے محظوظ ہوتی تھیں۔
سیٹھی ہاؤس سے اب تک 134 دستاویزات اور زیورات کی دریافت ہو چکی ہے، جن میں کاروباری خطوط جو کہ انگریزی اور روسی زبان میں لکھے گئے ہیں، پتھروں سے بنوائے گئے برتن، آئینے اور چراغ وغیرہ شامل ہیں۔ فہرست میں جو خطوط شامل ہیں، وہ ذیادہ تر 1928ء تا 1930ء تک کے ہیں۔
مجموعی طور پر اس گھر کے طرزِ تعمیر میں لوہے کے ڈھانچوں میں لکڑی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
سیٹھی ہاؤس کے طرزِ تعمیر میں جاہ و جلال اور امارت کی داستانیں خاموشی سے سوئی ہوئی ہیں۔ فلک سے اترتے سورج کی کرنیں اس گھر کے در و دیوار کو شفق کے رنگ میں بدل دیتی ہیں۔
سیٹھی ہاوس پشاور کی تاریخ میں اپنی ایک جداگانہ حیثیت کی حامل جگہ ہے۔
……………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونی والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔