ترجمہ: توقیر بُھملہ 
روس کے ایک قصبے میں ریلوے اسٹیشن پر نیا محافظ تعینات ہوا۔ تعیناتی کے پہلے روز وہ ریلوے اسٹیشن کے قریب بچھی ہوئی پٹڑی کی دیکھ بھال کے لیے گشت کر رہا تھا کہ اُس نے ایک شخص کو دیکھا جو بڑا سا آہنی اوزار تھامے پٹڑی کو زمین میں نصب کرنے والے چوڑی دار نٹ کھول رہا تھا۔ محافظ نے اُسے پکڑا اور اُسے تفتیش کے لیے پولیس سٹیشن لے گیا۔
تفتیشی افسر:۔ کیا تم جانتے ہو کہ تم جو کچھ کر رہے تھے، وہ کتنا خطرناک ہے؟ تم پر ہزاروں بے گناہ لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا الزام ہے۔
ملزم:۔ اتنا بڑا الزام……؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے……! مَیں تو صرف ایک نٹ کھول رہا تھا جو کسی کو بھی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔ مَیں نے اس سے پہلے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔
تفتیشی افسر:۔ تم نٹ کیوں کھول رہے تھے؟
ملزم:۔ میں ایک ماہی گیر ہوں اور مجھے مچھلی پکڑنے کے دوران میں جال کو پانی میں ٹھیک طرح سے پھینکنے کے لیے جال کے کناروں کے ساتھ کوئی بھاری چیز لٹکانے کی ضرورت ہوتی ہے، تو بطورِ وزن میں نٹ اُس جال کے ساتھ باندھ دیتا ہوں۔
تفتیشی افسر:۔ تم نے ایسی وزن دار چیز خریدی یا خود سے بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
ملزم:۔ جال کے لیے سوراخ والی زیادہ وزنی چیزوں کی ضرورت اکثر رہتی ہے، اور مَیں ایک غریب مچھیرا ہوں۔ چوڑی دار نٹ کو کھولنا، خریدنے یا بنانے سے زیادہ آسان ہے، اور پورا قصبہ ایسا ہی کرتا ہے۔
تفتیشی افسر:۔ یہ تم کیا کَہ رہے ہو…… یہ پاگل پن کی انتہا ہے۔ تم سب لوگ مل کر کیا کر رہے ہو…… اور سارے گاؤں نے تمھاری طرح چوڑی دار نٹ چوری کیے ہیں، تو پھر ریل ضرور اُلٹ جائے گی۔
ملزم:۔ نہیں……! یہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ ہم ایک طرف والے نٹ کو کھولتے ہیں اور دوسری طرف اس کے مقابل نٹ کو لگا رہنے دیتے ہیں۔ اس طرح باری باری ہم اسی ترتیب سے نٹ کھولتے ہیں، تاکہ ریل کا بوجھ تقسیم ہوجائے۔ ہم نے یہ بات اسکول میں فزکس کے اسباق میں اُس وقت سیکھی جب ہم چھوٹے تھے۔
تفتیشی افسر:۔ کچھ بھی ہو، تم لوگوں کے اس فعل سے ریل اور انسانی جانوں کو خطرہ ہے…… اور کیا تم لوگ ان تمام چوڑی والے نٹوں کو جال کے نیچے لگا کر مچھلی کے شکار کے لیے استعمال کرتے ہو……؟
دیگر متعلقہ مضامین: 
سورج مکھی (برازیلی ادب)
ماچس والی لڑکی (انگریزی ادب) 
ایک ہی کوکھ (موزمبیقی ادب) 
میرا یار ابو حسن (فلسطینی ادب) 
دو جنرل اور ایک عام آدمی (روسی ادب) 
ملزم:۔ مَیں اور میرے بھائی اُنھیں شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ہمارا پڑوسی اسے میئر کے گھر اور تھانے کے تالے اور کُنڈیاں بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔
تفتیشی افسر:۔ یہ تم کیا کَہ رہے ہو، اور تمھارا پڑوسی ایسا کیوں کرتا ہے؟
ملزم:۔ میئر نے اُسے اپنے گھر اور تھانے کے دروازوں کے لیے نئے تالے بنانے کو کہا…… لیکن اُس میئر نے اُسے پیسے نہیں دیے۔ اِس لیے اُس نے بغیر کسی خرچ کے تالے بنانے کا طریقہ سوچا…… اور اُسے اِس سے بہتر کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ ٹرین کے چوڑی دار نٹ وہ بھی خالص لوہے کے۔
تفتیشی افسر:۔ بلاشبہ اُس کے پاس اور حل نہیں تھا، لیکن میئر نے جب وہ چوڑی دار نٹ دیکھے، تو کیا اُس نے تالا ساز سے پوچھا کہ تم نے اُنھیں بنانے کے لیے رقم اور سامان وغیرہ کا بندوبست کیسے کیا؟
ملزم:۔ نہیں……! میئر کو کوئی پروا نہیں تھی۔ اُسے صرف نئے تالوں سے غرض تھی اور وہ اُسے مل گئے۔
تفتیشی افسر:۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم نے کوئی بڑی آفت آنے سے پہلے ہی سارا معاملہ دریافت کرلیا۔ مَیں اس قصبے میں بچھی ریل کی پٹری پر پہرہ دینے کا حکم جاری کروں گا، تاکہ آیندہ کوئی چوڑی دار نٹ کو کھول نہ سکے۔
ملزم:۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ہمیں اپنے ساتھ والے گاؤں سے چوڑی دار نٹ مل جائیں گے۔ ہم اُن سے سستے داموں خرید لیں گے۔
تفتیشی افسر گھبراہٹ اور غصے سے کانپتے ہوئے ملزم سے پوچھنے لگا کہ ’’تم کیا کَہ رہے ہو، کیا وہ بھی تمھاری طرح نٹ چوری کرتے ہیں؟
ملزم:۔ جی جناب……! ریل کی پٹری کے آس پاس کے تمام دیہات ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہاں اُن کو شکار کے لیے استعمال کرنے والے، اُنھیں بیچنے والے اور اُن کے ساتھ ساتھ تالے بنانے والے بھی ہیں۔ ہم سب ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ جیسا کہ ہمارے پاس کوئی متبادل وسائل نہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے پاس سستی ترین چیزیں خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی بقا کے لیے ریل کے چوڑی دار نٹ کو ہی کھولنا ہوگا۔
تفتیشی افسر:۔ اگر سرکار آپ کی معقول تنخواہیں مقرر کردے، تو کیا تم لوگ چوڑی دار نٹ چوری کرنا چھوڑ دو گے؟
ملزم:۔ مجھے خوف ہے جناب کہ نٹ کھولنا یہ سب کی پختہ عادت بن چکی ہے۔ اگر آپ کو چوڑی دار نٹ کی چوری سنجیدگی سے روکنی ہے، تو آپ کو پھر بچپن سے ہی تعلیم دینی چاہیے کہ بڑے ہوکر اُنھیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کے بعد نوجوانوں کی محرومی جب ختم ہوجائے گی اور اُنھیں گھر کی دہلیز پر انصاف، کام اور مناسب تنخواہ مل جائے گی، تو وہ کبھی چوڑی دار نٹ چوری کرنے کا نہیں سوچیں گے۔
تفتیشی افسر:۔ مَیں یہ سب تجاویز اپنی رپورٹ میں لکھوں گا، اور پھر دیکھتے ہیں کہ گورنر کیا کرتا ہے۔
اس کے بعد تفتیشی افسر نے فائل بند کر دی اور اگلی ریل پر سوار ہوگیا جو دارالحکومت کی طرف واپس جارہی تھی۔
کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے، تفتیشی افسر اپنے آپ سے کہنے لگا: کاش! ہم جلد از جلد فیصلہ کرلیں۔ کیوں کہ معاملہ انتہائی خطرناک ہے۔ معاشی محرومی اور دکھی لوگ…… یہ کسی بڑی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
انھی سوچوں میں غلطاں و پیچاں تفتیشی افسر نے ریل کی پٹڑی کے کنارے کھڑے ایک چھوٹے بچے کو دیکھا۔ اُس کے چہرے سے خوشی مترشح تھی۔ وہ ہنس رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں چوڑی دار دو نٹ تھے۔ یہ دیکھ کر تفتیشی افسر گھبراہٹ میں کانپ اُٹھا…… اور زور سے چلایا: ’’ریل کو روکو، ریل کو روکو……!‘‘
لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ تصادم کی بھیانک آواز پر چیخ و پکار کا شور مچ گیا اور ریل اُلٹ گئی۔
چھوٹے لڑکے نے انجانے میں آمنے سامنے کے دونوں نٹوں کو کھول دیا تھا۔ اُس نے وہی کیا جو قصبے کا ہر فرد کرتا آرہا تھا، لیکن اُسے اِس کام کی گہرائی اور انجام کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ وہ بچہ غریب پیدا ہوا۔ سکول گیا اور نہ اُس نے فزکس کے اسباق میں شرکت ہی کی تھی۔
حادثے کی تحقیقات میں لکھا گیا کہ ریل گاڑی کے حادثے کا ذمے دار غریبی اور جہالت کا شکار ایک چھوٹا بچہ ہے، جس کی پرورش ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی، جو چوڑی دار نٹ چوری کرتا ہے۔ لہٰذا نٹ کھولنا ہی ریل گاڑی اُلٹنے کا سبب بنا۔
(چیخوف کی مختصر کہانیاں یا مختصر افسانوں میں سے ایک افسانے ’’نٹ بے حد اہم ہے‘‘ کا ترجمہ و تلخیص عربی زبان میں ہوا تھا۔ اس طویل افسانے کے مختلف زبانوں میں مختلف ورژن ملتے ہیں۔ مَیں نے اسے عربی زبان سے ترجمہ کیا ہے، مترجم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔