’’میڈم فریدہ کو میرا سلام کہنا‘‘

blogger Ahmad Ali Shah Mashaal

دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی اُستاد کے بغیر
’’جائے استاد خالی است!‘‘ یہ مقولہ ابد تا حشر اپنی اہمیت قائم رکھے گا۔ اس دنیا میں آنے کے بعد ہر انسان موت کے آنے تک کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ والدین کے بعد تربیت میں استاد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اُوجِ کمال تک پہنچانے میں اچھے اُستاد کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کسی فرد کی صلاحیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے، تو اُس کے پیچھے اُس کا استاد چھپا ہوا ہوتا ہے۔ مَیں بھی اُن خوش قسمت افراد میں شامل ہوں جن کو اچھے استاد ملے۔ میری چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اُنھوں نے اُجاگر کیا۔احمد حاطب صدیقی صاحب سے معذرت کے ساتھ ان کی نظم میں تھوڑی ترمیم کرنے جا رہا ہوں:
احمد علی شاہ مشال کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ahmad/
’’میڈم فریدہ کو میرا سلام کہنا‘‘
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
مَیں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے سکھایا
اَن پڑھ تھا اور جاہل قابل مجھے بنایا
دنیائے علم و دانش کا راستہ دکھایا
اے دوستو! ملیں تو بس اک پیام کہنا
’’میڈم فریدہ کو میرا سلام کہنا‘‘
مجھ کو خبر نہیں تھی آیا ہوں مَیں کہاں سے
ماں باپ اِس زمیں پر لائے تھے آسماں سے
پہنچا دیا فلک تک ’’میڈم‘‘ نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام کہنا
’’میڈم فریدہ کو میرا سلام کہنا‘‘
جینے کا فن سکھایا مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گُر بتائے رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں پھولوں کی انجمن بھی
تم فخرِ قوم بننا اور نازشِ وطن بھی
ہے یاد مجھ کو اُن کا ایک اِک کلام کہنا
’’میڈم فریدہ کو میرا سلام کہنا‘‘
جو عِلم کا عَلم ہے ’’میڈم‘‘ کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے ’’میڈم‘‘ کی عطا ہے
جو فکرِ تازہ دم ہے ’’میڈم‘‘ کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے ’’میڈم‘‘ کی عطا ہے
اُن کی عطا سے چمکا میرا نام
’’میڈم فریدہ کو میرا سلام کہنا‘‘
اگر مجھے علمی حوالے سے کسی کا فرزند کہلوانے پر فخر ہوگا، تو وہ عظیم ہستی میڈم فریدہ ہیں، بلکہ ہر وہ شخص جو بیمار شعور و فکر کے علاج کا متمنی ہے، وہ میڈم فریدہ جیسے علمی استانی کا فرزند ہے۔ مَیں باقی اساتذہ کی نفی نہیں کر رہا بلکہ میرے دل اور روح کو جس نے بہت زیادہ جلا و تازگی بخشی مَیں اُس ہستی کے حوالے سے اپنے منفرد جذبات و احساسات کا اظہار کر رہا ہوں۔ ہر انسان کی نفسیات، مزاج اور کیفیات الگ ہیں دوسرے سے۔ اس لیے ہر انسان اپنے مزاجی مرتبے و کیفیت کے مطابق ایک دوسرے سے متاثر ہے۔ اس مدلل تاثیر سے مَیں خود کو آزاد نہیں کرسکتا۔ آخر کس کی جرات ہے کہ وہ مضبوط دلیل اور پاک احساس کے مقابلے میں مزاحمت کر سکے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کچھ امجد علی سحابؔ کے بارے میں  
استادِ محترم، مَیں شرمندہ ہوں 
دنیا کا بہترین استاد 
استاد، تجھے سلام 
ابراہام لنکن کا اپنے بیٹے کے اُستاد کے نام خط 
بقولِ ناصر کاظمی
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
سارے قرضے لوٹائے جاسکتے ہیں سوائے اُن قرضوں کے، جو ہمارے اساتذہ کے ہمارے اوپر ہیں۔ میڈم فریدہ وہ ہستی ہیں جو میری زِندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا مینار ہیں،جنھوں نے زندگی کے تاریک ترین دور میں میری رہنمائی کی،جنھوں نے مجھے چمڑے کی طرح سخت اور لوہے کی طرح مظبوط بنا کر زندگی کے ہر دن کو مکمل طور پر جینا سکھایا ، جنھوں نے مجھے زندگی میں آنے والے ہر چیلنج سے نمٹنے کی طاقت دی۔ خدائے عز و جل کے بعد وہ واحد ہستی ہیں جو سراپا شفقت ہیں۔ دنیا کے سارے حق ادا ہو جائیں گے، مگر میڈم فریدہ تیرے قرض کبھی نہیں چکا سکیں گے۔ میری پنج وقتہ نمازوں میں آپ کی لمبی زندگی کی دعائیں ہوتی ہیں۔ رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پہ قائم رہے، آمین!
اپنی یہ چھوٹی سی نظم میڈم فریدہ کے نام!
اگر میرے بس میں ہوتا، تو
چاند کو تیری انگوٹھی بناتا
اگر میرے بس میں ہوتا، تو
رات کو تیری آنکھوں کا سرمہ بناتا
اگر میرے بس میں ہوتا، تو
سورج سے تیرے چہرے کو منور کرتا
اگر میرے بس ہوتا، تو
ستاروں کو تیری بالیاں بناتا
اگر میرے بس میں ہوتا، تو
قوسِ قُزح کو تیرے گلے کا ہار بناتا
اگر میرے بس میں ہوتا، تو
کوہِ نور کو تیرے ماتھے کا جھومر بناتا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے