تحریر: دیوان سنگھ مفتون
مَیں جب ریاست نابھہ میں سرکاری ملازم تھا (وہاں مجھے دوسو روپیا ماہوار تنخواہ ملتی تھی)، تو میری سگائی ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں سردار ہرنام سنگھ کی لڑکی سے ہوگئی۔ ہندوستان میں عموماً اور ملازمت پیشہ لوگوں میں خصوصاً تجارت یا صنعت و حرفت کی کوئی قدر نہیں ۔ اگر کوئی شخص تجارت یا صنعت سے ایک ہزار روپیا ماہوار بھی پیدا کرتا ہو، تو اس کو معمولی شخص سمجھا جاتا ہے، مگر اس شخص کی زیادہ قدر ہے جو پچاس روپیا ماہوار کا سرکاری ملازم ہے۔ اور اوپر سے اگر ماہوار اس میں 20 روپے بھی رشوت کے شامل ہوں، تو یہ 20 روپے بھی 100 روپے کے برابر سمجھے جاتے ہیں۔ چناں چہ جب کوئی شخص اپنی لڑکی کا رشتہ کرنا چاہے، تو وہ سب پہلے یہ پوچھے گا کہ تنخواہ کیا ہے…… اور اوپر سے بالائی آمدنی (یعنی رشوت کتنی ہے)؟ اگر لڑکے والوں نے 50 روپیا تنخواہ اور ساتھ میں 20 روپیا ماہوار بالائی آمدنی بتائی، تو لڑکی والوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور فوراً رشتہ کر دیا جاتا ہے، چاہے بعد میں میاں بیوی فاقہ کشی ہی کیوں نہ کریں اور چاہے اُن کی زندگی مصائب کا شکار ہی کیوں نہ ہو۔
مَیں دو سو روپے ماہوار تنخواہ پاتا تھا۔ ریاست کی سرکاری ملازمت کی لوٹ مشہور ہے۔ بالائی آمدنی (یعنی رشوت) کے پوچھنے کا سوال ہی نہ تھا۔ ہر شخص اندازہ کرسکتا تھا کہ اگر دو سو روپیا ماہوار تنخواہ ہے، تو ریاست کی ملازمت میں اوپر کی آمدنی 4، 5 سو روپیا ماہوار سے کم کیا ہو گی۔ چناں چہ سردار ہرنام سنگھ نے اپنی لڑکی کا رشتہ میرے ساتھ کر دیا اور شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔
اس رشتے کو چند ماہ ہوئے تھے کہ مہاراجہ نابھہ پر مصائب کے بادل چھاگئے اور وہ گدی سے اُتار دیے گئے۔ مہاراجہ کے گدی سے اُتار دیے جانے کے بعد انگریز ایڈمنسٹریٹر آگیا۔ مَیں نے استعفا دیا، تو اُس نے منظور نہ کیا۔ آخر بغیر استعفا ہی میں نابھہ چھوڑنے والا تھا کہ گرفتار کر کے پولیس کے پہرہ میں نظر بند کر دیا گیا۔ 3 ماہ کے قریب ہی میں نابھہ میں اسیری کی حالت میں رہا۔ وہاں سے جب چھوڑا گیا، تو روزنامہ اُردو اخبار اکالی کو ایڈیٹ کرنے امرتسر چلا گیا۔ وہاں کچھ عرصہ اس اخبار کو ایڈیٹ کرتا رہا۔ اس کے بعد اپنے وطن حافظ آباد آگیا۔ وہاں بالکل بے کار تھا۔ نہ کوئی پروگرام نہ ملازمت اور نہ کوئی ذریعۂ معاش ۔
سردار ہرنام سنگھ جن کی صاحب زادی سے میرا رشتہ ہوا۔ بہت شریف اور نیک آدمی تھے۔ اُن کے گاؤں کے تمام لوگ محب الوطن تھے۔ جتنے لوگ کانگریس کی تحریک میں اس گاؤں سے قید ہوئے شاید پنجاب کے کسی دوسرے گاؤں سے نہ ہوئے تھے اور اگر مَیں غلطی نہیں کرتا، تو پنجاب میں صرف اس گاؤں نے ہی سرکاری مالیانہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور قومی حلقوں میں اس گاؤں کو پنجاب کا ’’باردولی‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب سردار ہرنام سنگھ کو میرے نابھہ سے حافظ آباد آنے کی اطلاع ملی، تو وہ حافظ آباد آئے۔ وہاں میرے چچا بھگوان سنگھ سے مل کر اُنھوں نے میری ملازمت کے متعلق کچھ تشویش کا اظہار کیا۔ قدرتی طور پر اُن کو تشویش ہونی چاہیے تھی، کیوں کہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ مَیں کب دوبارہ برسرِ روزگار آؤں اور کہاں دوبارہ ملازمت ملے۔
میرے چچا نے اس موقعے پر غلط اُمید دلاتے ہوئے اُن کو تسلی دی جس طرح عام لوگ اس موقع پر کرتے ہیں۔ کہا کہ ملازمت کی کوشش ہو رہی ہے، آج نہیں تو کل کہیں ملازمت مل ہی جائے گی۔ دیوان سنگھ کو ملازمت کی کیا کوئی کمی ہے…… اس کے تعلقات بہت بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ۔
دیگر متعلقہ مضامین:
دیوان سنگھ مفتون کی ایک پرانی تحریر
دریاوں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر
عورت اور بناو سنگار
سردار ہرنام سنگھ اور میرے چچا کی گفت گو کا علم مجھے سردار ہرنام سنگھ کے حافظ آباد سے واپس چلے جانے کے بعد اگلے روز ہوا۔ جب تمام حالات سے باخبر ہوا، تو مَیں سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سردار ہرنام سنگھ بے حد شریف اور نیک شخص تھے۔ اور بہت اچھے معزز خاندان سے تھے۔ اُن کی لڑکی جوان شادی کے قابل، اور دوسری طرف میں بے روزگار اور میرا مستقبل تاریک۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا کہ مَیں آیندہ زندگی میں کیا کروں اور کب کروں؟ معقولیت کے ساتھ دیکھا جائے، تو سردار ہرنام سنگھ کو میرے برسرِکار ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، اِدھر تو یہ خیال۔ دوسری طرف یہ احساس کہ اگر یہ رشتہ ٹوٹ گیا، تو رشتہ دار و برادری کے لوگ مذاق اُڑائیں گے کہ بے روزگاری کے سبب رشتہ نہ ہوا۔مَیں رات کو کئی گھنٹے تک سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
آخر مَیں نے فیصلہ کیا کہ مجھے معقولیت اور انصاف کا ساتھ دینا چاہیے اور اپنی خودغرضی کے باعث سردار ہرنام سنگھ کو غلط اُمیدوں اور توقعات میں رکھنا مناسب نہیں۔ مَیں نے اگلے دن اُن کو ایک رجسٹری خط بھیجا (رجسٹری کے ذریعہ خط بھیجنے کا مقصد تھا کہ خط وہاں تک پہنچ جائے) جس میں لکھا کہ مَیں بے روزگار ہوں۔ ملازمت سے علاحدہ ہوچکا ہوں۔ میرا مستقبل تاریک ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ مجھے کب ملازمت ملے اور میں برسرِکار ہوں۔ آپ میرا انتظار نہ کیجیے گا!
اس خط کو بھیجنے کے بعد مَیں نے کچھ ایسی راحت محسوس کی جیسی ایک فرض کو ادا کرنے کے بعد انسان محسوس کرتا ہے۔ میرے خط لکھنے کے بعد سردار ہرنام سنگھ نے اپنی لڑکی کی شادی شیخوپورہ کی ایک فیملی میں کر دی۔
مَیں حافظ آباد غالباً پانچ چھے ماہ بے کار رہا۔ یہ عرصہ میں نے حافظ آباد سے دو میل کے فاصلے پر ایک باغ میں بسر کیا۔ یہ باغ میرے عزیز دوست اور چچا زاد بھائی سردار حاکم سنگھ کپور کا تھا۔ اس باغ میں ایک خیمہ لگالیا گیا۔ مَیں شہر میں بہت کم جاتا اور دوست اکثر شام کو وہاں ہی پہنچ جاتے۔ چناں چہ اکثر ایسا ہوتا کہ شام کو آٹھ آٹھ دس دس دوستوں کی وہاں ہی دعوت ہوتی اور شاید ہی کوئی شام ہوتی جب کہ ہم چار پانچ دوستوں نے مل کر کھانا نہ کھایا ہو۔ پانچ چھے ماہ گزرنے کے بعد مَیں نے دہلی آکر یہاں ’’ریاست‘‘ (روزنامہ) جاری کیا۔ ریاست کو شروع ہی سے کامیابی نصیب ہوئی۔ روز بہ روز اشتہارات، اشاعت اور آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔ میرے معترف اور قدردان اصحاب کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا۔ ریاست کو چند ماہ ہی میں بہت کافی شہرت نصیب ہوئی اور اس کامیابی کی اطلاع سردار ہرنام سنگھ کو بھی ملتی رہی۔
پنجاب کے قریب قریب ہر قصبہ کے پاس تالاب ہیں۔ یہ تالاب شہر کے پانی سے بھرے رہتے ہیں اور ان تالابوں پر لوگ نہاتے اور کپڑے دھوتے ہیں اور ان کا پانی مال مویشی کے پینے یا ان کو نہلانے وغیرہ کے کام بھی آتا ہے۔ مجھے یاد ہے مَیں خود بھی حافظ آباد کے تالاب پر بچپن میں نہانے اور اپنے کپڑے دھونے جایا کرتا تھا اور تالاب کی سیڑھیاں مردوں اور عورتوں سے بھری رہتی تھیں، جو نہانے اور اپنے کپڑے دھونے کے لیے وہاں جایا کرتیں۔ گورو نانک کی پیدایش شیخوپورہ کے ضلع میں ننکانہ صاحب کے مقام پر ہوئی۔ کاتک کی پورن ماشی یعنی گورونانک کے یومِ ولادت کو اس مقام پر لاکھوں زائرین جاتے ہیں۔ چناں چہ حافظ آباد سے بھی دس دس بارہ بارہ بیل گاڑیوں کا قافلہ ننکانہ صاحب جایا کرتا تھا۔ اُن گاڑیوں میں سے کسی میں مرد بھرے ہوتے اور کسی میں عورتیں اور بچے۔ یہ قافلہ آٹھ یا دس میل کے بعد مختلف مقامات پر قیام کرتے ہوئے جاتا اور قافلہ کے لوگ گورو صاحب کے شبد پڑھتے ہوئے جاتے ۔
’’ریاست‘‘ کو جاری ہوئے دو تین سال ہوئے تھے کہ حافظ آباد سے ننکانہ صاحب کے لیے ایک قافلہ روانہ ہوا۔ اس قافلہ میں میرے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ میری والدہ اور ممانی بھی تھیں۔ قافلہ بیلوں کو پانی پلانے رُکا اور عورتیں اور مرد الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں درختوں کے سایہ کے نیچے تالاب کے کنارے بیٹھ گئے۔ وہاں شیخوپورہ کی عورتیں بھی نہانے اور کپڑے دھونے آئی ہوئی تھیں۔ بیٹھے بیٹھے شیخوپورہ کی عورتیں حافظ آباد کی عورتوں کے پاس آئیں۔ اصولاً اور عملاً جہاں دو عورتیں بھی جمع ہوجائیں وہاں ایک کانفرنس کا منظر ہوتا ہے۔ اتنی عورتیں خاموش کہاں رہ سکتی تھیں۔ ان کی آپس میں باتیں شروع ہوئیں۔ تم کہاں کی ہو، تمھارے میکے کہاں ہیں، شوہر کیا کرتا ہے، تمھارے بچے کتنے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
اتفاق سمجھیے یا پچھلے جنم کے تعلقات کے باعث اس زندگی میں ملنا جلنا (مَیں اس بات کا قائل ہوں کہ جن لوگوں کے ساتھ اس زندگی میں تعلقات ہوئے اُن کے ساتھ پچھلے جنم میں بھی تعلقات تھے۔ چاہے کسی صورت میں بھی تھے اور آیندہ جنم میں بھی ہوں گے۔ اس کا میرے پاس قطعی ثبوت موجود ہے جو کبھی آیندہ بتاؤں گا) میری والدہ اور میری ممانی کے پاس ایک لڑکی آبیٹھی جس سے یہ باتیں شروع ہوئیں:
میری والدہ: بیٹی تم کہاں کی رہنے والی ہو؟
لڑکی: مَیں یہاں شیخوپورہ کی رہنے والی ہوں۔
میری والدہ: تمھارے میکے شیخوپورہ میں ہیں یا یہاں تم بیاہی گئی؟
لڑکی: میری شادی یہاں ہوئی ہے۔ میرے میکے تو گوبند پورہ میں ہیں۔
میری والدہ: میرے لڑکے کی شادی بھی گوبند پورہ میں ہونے والی تھی مگر وہ رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔
لڑکی: گوبند پورہ میں کس کے گھر رشتہ ہوا تھا؟
میری والدہ: وہاں ایک سردار ہرنام سنگھ ہیں، اُن کی لڑکی سے رشتہ ہوا تھا۔
لڑکی: آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟
میری والدہ: ہم حافظ آباد کے رہنے والے ہیں۔
لڑکی : آپ کون ہوتے ہیں؟
میری والدہ : ہم کھتری ہوتے ہیں۔
لڑکی: آپ کا لڑکا کیا کام کرتا ہے؟
میری والدہ: پہلے ریاست نابھہ میں ملازم تھا۔ اب دہلی سے ریاست اخبار نکال رہا ہے۔
لڑکی یہ جواب سن کر کچھ حیران اور خاموش سی ہوگئی اور اُس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ میری والدہ نے پوچھا بیٹی کیا بات ہے، تم خاموش کیوں ہوگئیں؟ لڑکی پھر بھی خاموش رہی اور اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر میری والدہ اور میری ممانی نے پھر زور دے کر پوچھا کہ کیا بات ہے، تم خاموش ہوگئی، تو لڑکی نے بتایا کہ وہ سردار ہرنام سنگھ کی لڑکی ہے اور اس کی سگائی ہی حافظ آباد میں ہوئی تھی۔اُس لڑکی کی اس کیفیت کو دیکھ کر میری والدہ نے کہا: بیٹی! جہاں سنجوگ ہوں وہاں ہی شادی ہوتی ہے۔ اگر تمھاری قسمت میں ہمارے گھر آنا لکھا ہوتا، تو آتیں۔ ایسانہ لکھا تھا۔
اس کے بعد اور باتیں ہوتی ہیں اور کچھ دیر کے بعد قافلہ ننکانہ صاحب کی طرف روانہ ہوا اور وہ لڑکی اپنے گھر چلی گئی۔
ان حالات کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان خود غرضی سے بلند ہوکر معقولیت کے ساتھ کس مسئلے پر غور کرے اور پھر انصاف کا خیال کرتے ہوئے قدم اُٹھائے، چاہے یہ قدم انسان کو پیچھے ہی کیوں نہ لے جائے، تو وہ نقصان اُٹھانے کی صورت بھی اس کا ضمیر راحت اور سکون محسوس کرتا ہے۔ اور اگر انصاف، حق اور معقولیت کا خیال نہ کرتے ہوئے فائدہ بھی اُٹھایا جائے (جیسے ڈاکا، چوری یا رشوت خوری کے واقعات میں لوگ اٹھاتے ہیں تو) پیسا، دولت اور ہر قسم کا سامان راحت ہوتے ہوئے بھی ذہن عذاب محسوس کرتا ہے اور سکون ، صبر اور اطمینان کی نعمت نصیب نہیں ہوتی۔
دیوان سنگھ مفتون
ایڈیٹر ریاست اخبار، دہلی
1960ء۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔