آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 21 8(3) کے مطابق الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ایسے انتظامات کرے، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوں کہ انتخابات ایمان داری، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے عمل کو روکا جائے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاضں کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 23 3(2) کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان، سیکورٹی اہل کاروں، میڈیا اور انتخابی مبصرین کے لیے ضابطۂ اخلاق جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
عام انتخابات کی بابت جہاں الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں، امیدواران اور پولنگ ایجنٹس کے حوالہ سے مفصل ضابطۂ اخلاق جاری کیا، وہیں پر الیکشن کمیشن نے 13 اکتوبر 2023ء پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے بھی ضابطۂ اخلاق جاری کردیا۔
یاد رہے انتخابات میں ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 10 کے تحت الیکشن کمیشن توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی کے بعد سزا سنانے کا مجاز ہے۔ الیکشن کمیشن کی توہین ایسے تصور کی جائے گی جیسا کہ ہائیکورٹ کی توہین کی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں الیکشن کمیشن نے میڈیا کے لیے جاری ضابطۂ اخلاق کی شق نمبر 12کی خلاف ورزی پر پیمرا کو مراسلہ جاری کیا۔ الیکشن کمیشن نے پیمرا کو ایسے چینلز کے خلاف فوری ایکشن لینے کی ہدایات جاری بھی کیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ مذکورہ ضابطۂ اخلاق 17 نِکات پر مشتمل ہے۔ ضابطۂ اخلاق کی نمایاں خصوصیات درجِ ذیل ہیں:
انتخابی مہم کے دوران میں پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر نشر ہونے والا مواد، پاکستان کے نظریے، خود مختاری، وقار یا سلامتی، امنِ عامہ یا پاکستان کی عدلیہ کی سالمیت اور آزادی اور دیگر قومی اداروں کے خلاف کسی بھی رائے کی عکاسی نہیں کرے گا۔
ضابطۂ اخلاق میں میڈیا کو پولنگ اسٹیشن اور حلقوں سے سروے اور پول سے روکا گیا ہے۔ ایسے الزامات اور بیانات جو قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا انتخابی شیڈول کے اجرا سے لے کر امیدوار کے نوٹیفکیشن تک امن و امان کی صورتِ حال پیدا کرسکتے ہیں، اُن کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور کسی بھی میڈیا پرسن، اخبار اور چینل کو آپریٹ کرنے والے سرکاری اکاؤنٹ، ڈیجیٹل میڈیا اور دیگر سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے اکاؤنٹ سے شائع یا نشر کرنے سے سختی سے گریز کیا جائے گا۔
اگر کوئی امیدوار کسی دوسرے امیدوار پر الزام لگاتا ہے، تو میڈیا کو چاہیے کہ وہ دونوں فریقوں کو منصفانہ مواقع فراہم کرتے ہوئے دونوں فریقوں سے رائے اور تصدیق طلب کرے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
1965 کے صدارتی انتخابات  
انعقاد سے قبل ہی انتخابات متنازع ہوگئے 
وکلا تنظیمیں، الیکشن کمشنر اور عام انتخابات 
انتخابات بہ ہر صورت 8 فروری کو ہوں گے 
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر موجود مواد میں کسی بھی میڈیا پرسن، اخبار اور ڈیجیٹل میڈیا پر آفیشل اکاؤنٹس چلانے والے چینل اور سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے کسی بھی پہلو کو شامل نہیں کیا جائے گا جسے جنس، مذہب، فرقہ، ذات، برادری وغیرہ کی بنیاد پر امیدواروں یا سیاسی جماعتوں پر ذاتی حملے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی میڈیا پرسن انتخابی عمل میں کسی بھی طرح سے رکاوٹ نہیں ڈالے گا اور الیکشن کمیشن کی طرف سے فراہم کردہ اپنا ایکریڈیشن کارڈ دکھائے گا۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی، پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، سائبر ونگ اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کا ڈیجیٹل میڈیا ونگ سیاسی جماعتوں کو دی جانے والی کوریج کی نگرانی کرے گا۔
پیمرا، پی ٹی اے، پی آئی ڈی، سائبر ونگ اور ڈیجیٹل میڈیا ونگ، وزارتِ اطلاعات و نشریات ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں گے۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے میڈیا نمایندوں کو مناسب تحفظ فراہم کریں گے اور میڈیا ہاؤسز اپنی آزادیِ اظہار کو اپنا بنیادی حق سمجھ کر برقرار رکھیں گے۔
کوئی پرنٹ، الیکٹرانک یا ڈیجیٹل میڈیا امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی مہم نہیں چلائے گا۔
الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 182 کے تناظر میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی میڈیا پرسن انتخابات کے اختتام کے بعد آدھی رات کو ختم ہونے والے 48 گھنٹوں کے دوران میں کسی بھی الیکشن پول کے ذریعے کسی بھی امیدوار یا سیاسی جماعت کی انتخابی مہم کو پیش کرنے سے گریز کرے گا۔
پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے آفیشل اکاؤنٹس پر کوئی بھی صحافی، اخبار، چینل اور دیگر سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے کسی بھی پولنگ اسٹیشن یا حلقے میں داخلی اور خارجی انتخابات یا کسی بھی قسم کے سروے کرنے سے گریز کریں گے، جس سے ووٹرز کا ووٹ ڈالنے کا آزادانہ انتخاب یا کسی بھی طرح سے اس عمل میں رکاوٹ پیدا ہو، ووٹنگ کے عمل کے لیے ایک بار فوٹیج بنانے کے لیے صرف تسلیم شدہ میڈیا والوں کو پولنگ اسٹیشن میں کیمرہ کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ وہ بیلٹ کی رازداری کو یقینی بنائیں گے اور اسکرین شدہ ڈبے کی فوٹیج نہیں بنائیں گے، تاہم میڈیا اہل کاروں کو اس عمل کی کوئی فوٹیج بنائے بغیر گنتی کے عمل کا مشاہدہ کرنے کی اجازت ہوگی۔
پولنگ کے عمل کی کوریج کے دوران میں میڈیا پرسنز براہِ راست یا بالواسطہ کسی بھی قبل از انتخابات، انتخابات اور انتخابات کے بعد کے عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔
میڈیا پولنگ اسٹیشن کا کوئی غیر سرکاری نتیجہ ُاس وقت تک نشر نہیں کرے گا، جب تک پولنگ کے اختتام کے بعد ایک گھنٹا نہ گزر جائے۔ پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد براڈکاسٹر واضح اعلان کے ساتھ نتائج نشر کریں گے کہ یہ غیر سرکاری، نامکمل اور جزوی نتائج ہیں، جنھیں حتمی نتائج کے طور پر اُس وقت تک نہیں لینا چاہیے جب تک کہ ریٹرننگ افسر حلقے کے نتائج کا اعلان نہ کر دے۔
کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ای سی پی متعلقہ حکام کو مناسب کارروائی کی ہدایت کر سکتا ہے۔
اس ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی صحافی/ میڈیا آرگنائزیشن کی منظوری واپس لینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ خلاف ورزی کے تعین کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔