اہلِ بحرین ووٹ دیتے وقت یہ یاد رکھیں!

Blogger Zubair Torwali

قارئین! اس میں اَب ابہام نہیں کہ تحصیلِ بحرین پورے ضلع سوات کے رقبے کا 60 فی صد ہے اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 3 پورے ضلع سوات کے رقبے کا 70 فی صد بنتی ہے۔
اس میں بھی ابہام نہیں رہا کہ تحصیلِ بحرین (مدین، بحرین اور کالام کی وادیاں اور گاؤں) باقی ملک تو کجا خیبر پختون خوا کے پس ماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتی ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
اس میں بھی ابہام نہیں کہ اس تحصیل کے 8 یونین کونسلوں کو اگر ترقی، تعلیم اور معیشت کے حساب سے ترتیب دی جائے، تو یہ کچھ اس طرح بنے گی:
یونین کونسل تیرات، یونین کونسل مدین، یونین کونسل بحرین، یونین کونسل کالام، یونین کونسل اُتروڑ، یونین کونسل بشیگرام، یونین کونسل مانکیال اور یونین کونسل بالاکوٹ۔
چار یونین کونسل قدرے بہتر جب کہ باقی ماندہ چار: یونین کونسل مانکیال، یونین کونسل بالاکوٹ، یونین کونسل بشیگرام اور یونین کونسل اتروڑ میں پس ماندگی کا مقابلہ سخت ہے۔
اس میں بھی ابہام نہیں کہ پورا کالام فارسٹ ڈویژن تحصیل بحرین میں پڑتا ہے، اور ضلع سوات کا جو جنگلات کے حوالے سے پورے ملک میں چوتھا نمبر ہے، وہ اسی ڈویژن کی وجہ سے ہے۔
اس میں بھی شک نہیں کہ گذشتہ 2سیلابوں (جولائی 2010ء اور اگست 2022ء) نے پورے سوات میں تحصیلِ بحرین کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، بلکہ تباہ ہی کردیا ہے۔
اس میں بھی ابہام نہیں کہ روزگار کے مواقع نہ ہونے اور ’’ترقی کرتی غربت‘‘ کی وجہ سے اس تحصیل سے نقلِ مکانی یعنی ہجرت زیادہ ہے۔ روزگار کے جو سرکاری مواقع ہوتے ہیں، اُن پر بھی دوسرے علاقوں سے لوگوں کو لاکر بٹھایا جاتا ہے۔
یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس تحصیل میں پانی کے سارے ذخائر موجود ہیں۔ ایک پن بجلی منصوبہ مکمل ہوچکا ہے بحرین میں جب کہ مٹلتان والا مکمل ہونے کو ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اس علاقے میں کم از کم 06 نئے منصوبوں کی تیاری ہوچکی ہے اور کام شروع ہونے والا ہے۔
سوات کی عمومی سیاحت کا دار و مدار بھی اگر سب نہیں، تو 80 فی صد اسی علاقے کی وادیوں پر ہے۔ یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ یہاں کے جتنے ہائی سکول ہیں، اُن میں سٹاف کی کمی ہے اور اُن ہائی اور مڈل سکولوں کو باہر کے علاقوں سے بھرتیوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ پانی اور جنگلات کے ان ذخائر سے جو آمدن آتی ہے، وہ یہاں خرچ نہیں ہوتی۔ فارسٹ ترقیاتی فنڈ ہوں یا پن بجلی منصوبوں کی رائلٹی…… سب پیسا کہیں اور لگایا جاتا ہے۔ جنگلات اور پانی اس علاقے میں، لیکن ان کی اس آمدن کا اس علاقے کو کوئی فائدہ نہیں۔
ایسا کیوں ہے…… کبھی پوچھا گیا ہے؟
الیکشن کو کوئی 40 دن رہ گئے ہیں۔ بہت سارے مرد ’’اُمید سے ہیں‘‘ اور امیدوار بنے ہیں۔ گاؤں گاؤں قریہ قریہ گھومتے ہیں۔ کوئی جنازہ مس نہیں کرتے۔ کبھی اُس چٹان چڑھتے ہیں تو کبھی اِس کھائی اُترتے ہیں۔ دور کسی دیہات میں کسی بزرگ کو گلے لگاتے ہیں، تو کہیں پہ کسی نوجوان کا ماتھا چومتے ہیں۔ رشتے داریاں تازہ ہورہی ہیں۔ سیلفیاں بن رہی ہیں۔ تصاویر کی بھرمار ہے کہ جاری ہے۔ کہیں کہیں خفیہ طور پر ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات 2024ء، سوات سے کاغذاتِ نام زدگی کا مرحلہ مکمل  
سوات، انتخابات کی تیاریاں اور بد امنی پھیلانے کی کوشش  
1954ء کو ریاستِ سوات میں ہونے والے انتخابات کی روداد
آیندہ انتخابات کے لیے سوات کا سیاسی تجزیہ 
انعقاد سے قبل ہی انتخابات متنازع ہوگئے  
جہاں جاتے ہیں، وہاں کے لوگ خوش ہوتے ہیں۔ عزت کے کسی مارے کو لگتا ہے کہ اُس کو عزت دی گئی کہ فُلاں صاحب اُس کے ہاں آیا۔ کسی کو کسی پارٹی کا واسطہ دیا، دین کا واسطہ دیا، تو کہیں پہ نسل اور قبیلے کا تڑکا لگانا شروع کیا۔ کسی نے اپنی بزرگی جھاڑی، تو کسی نے اپنی دین داری……!
جہاں جاتے ہیں، مجھے خدشہ ہے کہ لوگوں نے اپنے بڑے مسائل میں پانی کے پائپ، تھانے میں کسی کیس یا درخت کاٹنے کے بدلے پرچوں کو ختم کرنا وغیرہ سامنے رکھا۔ کسی نے سڑک، راستہ اور پل بنانے کا مطالبہ کردیا۔
یہ سارے مسائل اصل میں اثرات ہیں اور یہ بڑھتے ہی رہتے ہیں کہ بنیادی مسائل جوں کے توں ہی نہیں، بلکہ اُن کو مزید گھبیر کیا جاتا رہا ہے۔
اس بار پوچھیے گا ان امیدواروں سے کہ اسمبلی جاکر ان مسائل اور وسائل کے بارے میں موجود ناقص پالیسیوں کی تبدیلی کے لیے کیا پروگرام ہے؟
پوچھیے گا کہ کسی سابق دور میں ان مسائل اور ممکنہ حکمت عملیوں پر کس قدر آواز اُٹھائی؟
ان سے پوچھیے گا کہ یہاں پر موجود سرکاری نوکریوں پر مقامی لوگ کیوں بھرتی نہیں ہوسکتے؟ـ
ان سے پوچھیے گا کہ یہاں کے مڈل اور ہائی سکولوں میں بھرتیوں کا مقابلہ یونین کونسل کی سطح پر کیوں نہیں ہوسکتا؟
ان سے پوچھیے گا کہ یہاں کے پن بجلی منصوبوں سے رائلٹی یہاں خرچ کیوں نہیں ہوتی…… وہ ایف ڈی ایف فنڈ یہاں کیوں نہیں لگایا جاتا؟
یہاں کے ان پن بجلی منصوبوں سے مقامی لوگوں کو مفت نہیں، تو سستی بجلی کیوں فراہم نہیں کی جاتی…… تاکہ وہ جنگلات کو بچا سکیں؟
ان سے پوچھیے گا کہ یہاں کی سیاحت سے مقامی لوگوں کو فائدہ کیوں نہیں پہنچ رہا؟
ان سے پوچھیے گا کہ کیا مقامی زمینیں ہڑپ کرنے کا مطلب سیاحت کی ترقی ہے؟
یا چلیں مت پوچھیں……! بس ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچیں، نعرے لگائیں، گاؤں کے کسی دوسرے فرد کو جلانے کے لیے کہیں کہ یہ دیکھ میرا لیڈر آیا ہے!
یہ نہ پوچھیں، بس صبح اُٹھ کر سوچیں کہ کس پر کوئی کیس کیسے کیا جاسکتا ہے، کس کو کس طرح نیچا دکھانا ہے، کس کے لیے زیادہ شور برپا کرنا ہے اور اپنے کسی کو کیسے ہرانا ہے؟
سیاست اس ملک میں دم توڑ چکی ہے۔ ملکی سطح پر کوئی قیادت نہیں کہ وہ سیاست کرے۔ ایسے میں کسی سیاسی پارٹی یا کسی لیڈر سے نتھی ہونے کی بجائے اپنے مقامی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا بہتر ہے۔ کوئی بھی لیڈر سیاست نہیں کر رہا۔
یہاں سیاست صرف ایک منظم طاقت ور جماعت کرتی ہے، جس کا مَیں نہیں بتاؤں گا۔
ہمیں مقامیت کی طرف لوٹنا ہے اور اپنی زمین اور اس دھرتی کا سوچنا ہے، اپنے مستقبل کا سوچنا ہے۔ ہماری نسل کسی زمانے میں مستقبل ہوا کرتی تھی، اب ماضی بن کر رہ گئی ہے اور مایوس بھی ہوگئی ہے، جو اگلی نسلیں ہیں، اُن کو مستقبل کہا جاتا ہے۔ وہ تباہ ہورہی ہیں۔ کم از کم ان کا سوچیں کہ اُن میں ہمارے ، تمھارے ہم سب کے بیٹے اور بیٹیاں شامل ہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے