رزق کی کنجیاں

Dr Muhammad Najeeb Qasim Sambhli

ہم سب رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جد و جہد، محنت اور کوشش پر انحصار کرلیتے ہیں۔ لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت اور برکت کے چند اسباب تحریر کررہا ہوں۔ اگر ہم دنیاوی جد و جہد کے ساتھ ان اسباب کو بھی اختیار کرلیں، تو اللہ تعالا ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ، جو ہر شخص کی خواہش ہے:
ڈاکٹر محمد نجیب قاسم سنبھلی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/dr-muhammad-najeeb-qasmi/
٭ استغفار وتوبہ (اللہ تعالا سے گناہوں کی معافی مانگنا) :۔ اللہ تعالا قرآنِ کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی قوم سے کہا : ’’پس مَیں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمھارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمھارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘ (سورۂ نوح 10،12)
مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات (10، 12)، سورۂ ہود کی آیت نمبر (3) ، اور آیت نمبر (52) میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’جس نے کثرت سے اللہ تعالا سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی۔ اللہ تعالا اس کو ہر غم سے نجات دیں گے۔ ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند حاکم)
٭ تقوا (اللہ تعالا سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنا):۔ اللہ تعالا قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: ’’اور جو کوئی اللہ تعالا سے ڈرتا ہے، وہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے، جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سورۂ الطلاق 2، 3)
٭ اللہ تعالا پر توکل:۔ توکل (بھروسا) کے معنی امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں لکھے ہیں: ’’ توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو، جس پر توکل کرنے کا دعوا کیا گیا ہو۔ (احیاء العلوم 4، 259)
اللہ تعالا قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ اور جو کوئی اللہ تعالا پر بھروسا رکھے،وہ اس کو کافی ہے۔ (سورۂ الطلاق 3)
دیگر متعلقہ مضامین:
شکر گزاری کو شعار بنالیں 
امام مسجد صاحب کے نام کھلا خط 
حقوقِ انسانی قرآن و حدیث کی روشنی میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’اگر تم اللہ تعالا پر اسی طرح بھروسا کرو، جیسا کہ اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے، تو تمھیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
یاد رکھیں کہ حصولِ رزق کے لیے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لیے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔
٭ اللہ تعالا کی عبادت کے لیے فارغ ہونا:۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصولِ رزق کے لیے کوئی کوشش نہ کریں، بلکہ اللہ تعالا کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے زندگی گزاریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالا نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر، مَیں تیرے سینے کو تونگری سے بھردوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)
٭ حج اور عمرہ میں متابعت (بار بار حج اور عمرہ ادا کرنا):۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: پے در پے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ ( ترمذی، نسائی)
٭ صلۂ رحمی (رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا):۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔ (بخاری)
صلۂ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق، حدیث کی تقریباً ہر مشہور و معروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات موجود ہیں۔
٭ اللہ تعالا کی راہ میں خرچ کرنا:۔ اللہ تعالا قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: اور تم لوگ (اللہ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (سورۂ سبا 39)
احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالا نے ارشاد فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، مَیں تجھ پر خرچ کروں گا۔ (مسلم)
میرے عزیز بھائیو ! جس طرح حصولِ رزق کے لیے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم وتعلم میں جد وجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان ومال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں۔اسی طرح قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کریں، اللہ تبارک وتعالا ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، اِن شاء اللہ!
اللہ تعالیٰ ہمیں اُخروی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے