جسٹس سردار طارق مسعود اور ناقابلِ اعتبار عورت

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ جسٹس اعجاز الاحسن، سپریم کورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کو رٹ جسٹس اختر افغان پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت کی سماعت کی۔ اس موقع پر جواب گزار جج، جسٹس سردار طارق مسعود، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور شکایت کنندہ آمنہ ملک بھی موجود تھیں۔ سماعت کے بعد کونسل کے چیئرمین اور چاروں ممبران کی متفقہ رائے پر مبنی کونسل کی کارروائی اور حکم نامہ جاری کردیا گیا، جو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
شکایت میں جج کے خلاف ٹیکس معاملات میں ہیراپھیری کے الزامات تھے۔ کونسل کی کارروائی کی تفصیلات میں حیران کن انکشافات منظرِ عام پر آئے۔ امریکہ کے مشہور موسیقار کے مشہورِ زمانہ قول "Greed is the inventor of injustice as well as the current enforcer.” سے ماخوذ شکایت کا ٹائٹل دے کر کونسل میں معزز جج کے خلاف ٹیکس چوری کا الزام لگانے والی شکایت کنندہ موصوفہ آمنہ ملک اپنے شوہر سمیت خود ٹیکس چور نکلیں۔ آئیے، کونسل کی کاروائی سے چند اقتصابات کا مطالعہ کریں۔
شکایت کنندہ آمنہ ملک نے حلف اُٹھا کر کہا کہ مَیں لارنس روڈ لاہور کی رہایشی ہوں۔ مَیں نے 16 جون 2023ء کو جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف ایک شکایت جمع کرائی تھی، جس کا ٹائٹل تھا "Greed is the inventor of Injustice” مَیں نے اس شکایت کا جائزہ لیا ہے اور تصدیق کرتی ہوں کہ یہ وہی شکایت ہے جس پر مجھے 28 اکتوبر 2023ء کو سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے نوٹس موصول ہوا تھا، جس میں مجھے اپنی شکایت کے حوالے سے معاون مواد فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جس پر میں نے تین نومبر 2023ء کو ایک خط لکھا تھا، جس کے ساتھ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 122 کے تحت جاری چھے صفحات کی ایک دستاویزلف کی تھی۔
اس کے بعد اجلاس میں جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی اپنا جواب پیش کیا اور اسے حرف بہ حرف پوری کونسل کے سامنے بہ آوازِ بلند پڑھا۔ اس موقع پر سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے آمنہ ملک سے کچھ سوالات کیے گئے۔
سوال:۔ کیا آپ اظہر صدیق ایڈووکیٹ کو جانتی ہیں؟
جواب:۔ جی، مَیں اُنھیں جانتی ہوں۔
سوال:۔ کس حوالے سے؟
جواب:۔ مَیں اُنھیں جانتی ہوں کہ وہ ایک مشہور وکیل ہیں۔
سوال:۔ کیا عبداللہ ملک آپ کے خاوند ہیں …… جو کہ اظہر صدیق کے جونیئر ایسوسی ایٹ وکیل ہیں؟
جواب:۔ جی، میرے خاوند ہیں۔
سوال:۔ کیا آپ نے یا آپ کے خاوند نے اظہر صدیق کو اس شکایت کی کاپی مہیا کی تھی؟
جواب:۔ مجھے نہیں معلوم!
سوال:۔
یہ شکایت کس نے ڈرافٹ کی ہے؟
جواب:۔ یہ میری ٹیم نے کی تھی۔
سوال:۔ ٹیم سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب:۔ کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
سوال:۔ کیا آپ جسٹس سردار طارق مسعود کے جواب سے مطمئن ہیں؟
جواب:۔ جی، میں مطمئن ہوں!
سوال:۔ آپ نے ایف بی آر کے آرڈر کی کاپی کہاں سے لی تھی جو کہ آپ نے خط کے ساتھ لگائی ہے اور جس کا آپ نے اپنی شکایت میں ذکر کیاہے؟
جواب:۔ جواب دینے سے انکار۔
سوال:۔ کیا آپ انکم ٹیکس دیتی ہیں؟
جواب:۔ نہیں!
سوال:۔ کیا آپ کا خاوند انکم ٹیکس دیتا ہے؟
جواب:۔ نہیں۔
سوال:۔ آپ نے بتایا کہ آپ سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان کی صدر ہیں، کیا آپ کی سوسائٹی رجسٹرڈ ہے؟
جواب:۔ جی ہاں!
سوال:۔ کس قانون کے تحت رجسٹرڈ ہے؟
جواب:۔ نہیں معلوم!
سوال:۔ کیا آپ سوسائٹی کی رجسٹریشن کی دستاویزات پیش کرسکتی ہیں؟
جواب:۔ جی بالکل، لیکن ابھی اس وقت دستاویزات میرے پاس موجود نہیں۔
سوال:۔ کیا آپ سردار طارق مسعودسے کچھ پوچھنا پسند فرمائیں گی؟
جواب:۔ نہیں، مَیں اُن کے اس جواب سے مطمئن ہوگئی ہوں اور مَیں اُن سے کچھ بھی نہیں پوچھنا چاہتی۔
سوال:۔ کیا آپ کی سوسائٹی کا بینک اکاونٹ ہے؟
جواب:۔ نہیں!
سوال:۔ کیا آپ کی سوسائٹی کو فنڈز ملتے ہیں؟
جواب:۔ نہیں!
سوال:۔ آپ کی سوسائٹی میں کتنے ممبران ہیں؟
جواب:۔ مجھے نہیں معلوم!
سوال:۔ کیا آپ اپنے علاوہ سوسائٹی کے کسی اور ممبر کا نام بتا سکتی ہیں؟
جواب:۔ مَیں اپنی سوسائٹی کی واحد ممبر ہوں۔
سوال:۔ کیا یہ درست ہے کہ آپ سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان کی واحد ممبر ہیں؟
جواب:۔ جی یہ درست ہے۔
اس موقع پر جسٹس سزا طارق مسعود نے پوچھا کہ(سوال) آپ کس کے کہنے پر یہ سب کچھ کر رہی ہیں؟
جواب:۔ کوئی جواب نہیں دیا۔
سوال:۔ کیا آپ اور آپ کے خاوند کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے؟
جواب:۔ میرا نہیں۔ خاوند کے بارے میں علم نہیں۔
سوال:۔ آپ اظہر صدیق کا ٹویٹ دیکھیں، جو میرے جواب کے ساتھ لف ہے۔ اظہر صدیق کو آپ کی شکایت (مندرجات) کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟
جواب:۔ اس کا جواب اظہر صدیق ہی دے سکتے ہیں۔
قارئین! حکم نامہ کے مطابق مجموعہ ضابطہ دیوانی کے آرڈر نمبر 18 کے رولز نمبر 12 اور مجموعۂ ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 363 کے تحت آمنہ ملک کا بیان قلم بندکیاگیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے قرار دیاہے کہ شکایت کنندہ آمنہ ملک ناقابلِ یقین اور ناقابلِ اعتبار ہیں، جنھوں نے بدنیتی سے یہ معلومات لی ہیں اور کونسل کے اکثر سوالوں کے جواب میں سچ بیان نہیں کیا۔ کونسل کے فیصلے کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف چلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم کا یقینی طور پر خاتمہ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’چور مچائے شور‘‘ بس یہی صورتِ حال اس ریفرنس کی کارروائی کے دوران میں پیش آئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے