کرکٹ کا ورلڈ کپ اپنی چکا چوند کے ساتھ رخصت ہوگیا اور ایک دلچسپ میچ کے بعد فائنل میں آسٹریلیا نے بھارت کو شکست دے کر اگلے چار سال کے لیے یہ ٹرافی اپنے نام کرلی۔
میری نظر میں کرکٹ ورلڈ کپ بس ایک کھیلوں کا شان دار مظہر تھا اور مَیں نے اس کو بس ایک کھیل ہی کی طرح لیا۔ اگر تھوڑی بہت دلچسپی تھی، تو وہ بھی پاکستان کی ٹیم کی حد تک ہی تھی…… لیکن جب پاک ٹیم شکست کھا کر باہر ہوگئی، تو پھر باقی ورلڈ کپ بس ایک کھیل تک محدود ہوکر رہ گیا۔ البتہ میری کسی نہ کسی حد تک ہم دردی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ تھی۔ کیوں کہ میرا خیال ہے کہ گذشتہ ورلڈ کپ عملی طور پر نیوزی لینڈ کی ٹیم جیت گئی تھی، لیکن کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی بنیاد پر برطانیہ کو فاتح قرار دیا گیا تھا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
لیکن میرے لیے برصغیر کے عوام کا رویہ اور خاص کر پاکستان کی اکثریت کا رویہ ہمیشہ سے ہی عجیب اور ناقابلِ فہم رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کرکٹ میچوں کی بنیاد پر کشمیر سے سیاچین گلیشیر تک کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت درد ناک حقیقت ہے کہ برصغیر کے دونوں بڑے ملکوں میں ایک مناسب تعداد میں طبقہ ہمیشہ سے ہی دو پڑوسی ممالک کے درمیان نفرت کی آگ نہ صرف لگاتا ہے، بلکہ کسی خاص موقع یا واقعہ پر اس آگ پر پٹرول چھڑکتا ہے…… اور سول سوسائٹی کی وہ آوازیں جو رواداری، برداشت اور باہمی مسائل کو مذکرات سے حل کرنے کی متمنی ہیں، وہ نقار خانہ میں توتی کی آواز کی طرح سننے نہیں دی جاتیں…… بلکہ کچھ صورتوں میں ایسی آوازوں کو غدار اور واجب قتل تک کہا جاتا ہے۔
بھارت میں تو تقسیم کے اول دن سے ہی ایک طبقہ پاکستان بلکہ مسلم دشمن بن گیا اور اُنھیں بدبختوں نے مہاتما گاندھی جیسے سچے قوم پرست اور عوام دوست شخص کو قتل کیا۔ پھر اُسی سوچ نے ’’جن سنگھ‘‘ کا پلیٹ فارم دیا اور ’’بال ٹھاکرے‘‘ جیسے کردار آگے آئے۔ پھر وہی سے بی جے پی نے جنم لیا اور اب بی جے پی کو اُنھیں کا سیاسی ونگ مانا جاتا ہے۔
یہاں تاریخی طور پر ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے بحیثیتِ حکم ران، پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش کی۔ اس سوچ کے اول شاہ کار وزیرِ اعظم مراجی ڈیسائی کو تو پاکستان نے نشان امتیاز دیا۔ پھراٹل بہاری واجپائی نے بھی حالات کو نارمل رکھا۔ واجپائی خود قیامِ پاکستان کی یادگار مینارِ پاکستان پر چل کرآئے۔ گویا یہ پیغام تھا کہ ہم پاکستان کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور قبول بھی۔ حتی کہ کارگل کے واقعے کے باجود واجپائی حکومت کا رویہ کافی معقول رہا۔ جب تک اُن کی حکومت رہی، ایل کے ایڈوانی اور بال ٹھاکرے ٹائپ سوچ دبی رہی۔ اب نیریندر مودی کا دوسرا دورِ حکومت ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ مودی ’’اڈوانی پروڈکٹ‘‘ ہے، لیکن بہرحال مودی حکومت بارے جو بین الا قوامی ذہانت کے خدشات تھے، شاید مودی حکومت ویسی نہ ہوئی اور مودی نے بھی ایک حد تک بہتر رویہ رکھا۔ اب حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کی داخلی طور پر کچھ مسلم دشمن پالیسوں کے باجود بھی اس کا پاکستان بارے رویہ اس طرح کا شدید نہیں جیسا ’’ایڈوانی‘‘ یا ’’بال ٹھاکرے‘‘ فکر تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بے شک کچھ انتہا پسندوں کے کچھ داخلی طور پر مسلمانوں یا دوسری اقلیتوں بارے غلط اقدامات کے باجود بہت سے مسلمان مودی کو ووٹ کرتے ہیں۔ کیوں کہ مودی نے بہرحال بحیثیتِ مجموعی ہند واسطے کام تو کیا…… لیکن یہ درست ہے کہ بھارت میں خاص کر شمال جیسے گجرات مہاراشٹر بلکہ دہلی تک ایک خاص ہندو انتہا پسند سوچ ہے، جو پاکستان کو ختم کرنے اور مسلمان کو غلام بنانے کی شدید خواہش رکھتی ہے۔
قارئین! اسی طرح ایک انتہا پسند سوچ ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔ معذرت کے ساتھ بھارت میں سوچ تقسیمِ ہند نے پیدا کی، لیکن پاکستان میں یہ سوچ آمریت نے زیادہ پروان چڑھائی۔ اب آپ تاریخ دیکھیں، ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف خود تو ہند کے آگے جھکتے رہے، لیکن اپنی سیاسی مجبوریوں کے لیے بھارت نفرت، خاص کر مذہبی حلقوں کی آبیاری کرتے رہے۔ اور یہ سیاسی مجبوری تو ہوتی ہے آمریت کی کہ اس کے پاس نہ اپنی سیاسی جماعت ہوتی ہے، نہ سیاسی سوچ اور منشور۔ سو وہ قوم کے اندر حب الوطنی کا چورن زیادہ بیچتی ہے اور اس واسطے ایک دشمن کا ہونا لازمی امر ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو تو ایک بنا بنایا دشمن مل گیا۔ سو اس سے بہتر آمریت کے لیے اور کیا ہوسکتا تھا……لیکن میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں طرف کی اقوام خاص کر ’’انتہا پسند‘‘ لوگ سوچیں کہ بھارت میں مہاتما گاندھی سے لے کر برکھا دت تک بہت قابل اور معقول لوگ تھے، اور ہیں…… جو یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں اقوام کی جانب سے غیر ضروری نفرت اپنی اصل میں بے شک غلط ہے، لیکن اس کے نتائج دونوں ممالک بشمول انتہا پسندوں کے لیے کسی بھی حالت میں بہتر نہیں۔
پاکستان میں تو بابائے قوم نے یہاں تک فرمایا تھا کہ بھارت اور پاکستان امریکہ اور کینڈا کی طرح آپس میں رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا فلسفہ ہے کہ اول امن ہو اور ساری توجہ تعلیم و معیشت پر ہو۔ جب ان دو معاملات میں دونوں ممالک بہتر ہوجائیں، تو باہمی تنازعات بشمول کشمیر خود بخود حل ہوجائیں گے۔ کیوں کہ آج کی دنیا میں تعلیم یافتہ اور بہتر معاشی حالات کی شکار اقوام میں حب الوطنی کے معیارات ویسے نہیں، جیسے ایک نیم خواندہ اور غریب معاشرے میں ہوتے ہیں۔ ہمارے سامنے روس تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔ چیک سلواکیہ دو ممالک میں تقسیم ہوا۔ یوگو سلاویہ تین ممالک میں تقسیم ہوا، اس طرح برطانیہ نے آئیر لینڈ میں ریفریڈم کروا دیا، کینڈا نے ایک علاحدگی پسندوں والے صوبے میں کروا دیا…… نہ کسی نے ملک دشمنی کہا، نہ کسی کی حب الوطنی پر حرف آیا۔ یہاں کہیں کشمیر ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے، تو کہیں ’’کشمیر بنے گا پاکستان!‘‘ کا نعرہ گرم ہے۔ اسی جذباتیت کی وجہ سے کشمیریوں کے حالات بھی خراب ہیں اور دونوں ملکوں کا بے حد معاشی نقصان بھی ہورہا ہے۔
آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا، بھارت کے مدِ مقابل تھا۔ آسٹریلیا ہم سے ہزاروں میل دور، اُن کا مذہب، اُن کی ثقافت، اُن کی زبان حتی کہ اُن کی تاریخ ہم سے کلی طور پر مختلف…… جب کہ بھارت ہمارا قریب ترین پڑوسی کہ جس کی سرحدیں ہمارے دو صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ کے علاوہ گلگت بلستان اور کشمیر سے بھی ملتی ہیں۔ جہاں پاکستان سے زیادہ ہمارے ہم مذہب بستے ہیں۔ جن کی زبان اور ثقافت ہم سے ملتی جلتی ہے…… اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ اُن کی تاریخ اور ہماری تاریخ بھی ایک ہی ہے…… لیکن نفرت کی انتہا دیکھیں کہ پاکستان کے مقابل ہر ٹیم کے لیے بھارتی کا معقول تعداد میں کراوڈ دوسرے حریف ممالک کا حمایتی تھا، جب کہ پاکستانیوں نے تو حد ہی کر دی کہ فائنل میں بھارت کے مقابل آسٹریلیا کی نہ صرف حمایت کی، بلکہ باقاعدہ ان کے لییدعائیں بھی کی گئیں۔ حد ہے کہ جب آسٹریلیا نے آخری وننگ رن لیا، تو پاکستان میں جشن کا سماں بن گیا۔ اگلے دن پورا پاکستانی سوشل میڈیا اظہارِ خوشی میں بھرا پڑا تھا۔ سچ یہی ہے کہ اس خوشی میں آسٹریلیا کی فتح کا بہت معمولی عنصر تھا، جب کہ ایک بہت بڑی اکثریت کے لیے بھارت کی شکست باعثِ خوشی تھی۔ ہم نے خود اچھے خاصے سمجھ دار لوگوں کو ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے دیکھا، یعنی حد ہوگئی۔ اب آپ اسے سادگی کَہ لیں یا حماقت۔ ہارا بھارت، جیتا آسٹریلیا اور جشن شاید سڈنی، کیمبرا، برسبین، پرتھ سے زیادہ اسلام آباد کراچی لاہور میں ہوا۔
دوسری بات…… یہ نہیں کہ یہ حرکت محض پاکستانی کرتے ہیں، بلکہ اگر فائنل پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ہوتا اور آسٹریلیا جیت جاتا، تو یہی جشن دہلی، احمد آباد اور ممبئی میں ہوتا۔
یہ مظاہرہ ہماری سول سوسائٹی اور ذمے داران کے لیے قابلِ فکر ہونا مطلوب ہے کہ کیا اس رویے کے ساتھ ہم اس بیسیوں صدی میں آگے چل سکتے ہیں، ہم ترقی کرسکتے ہیں یا ہم مہذب قوم بن سکتے ہیں؟ کیوں کہ اس قسم کا جنونی، پاگل، بچکانہ و احمقانہ رویہ اور سوچ کے ساتھ میرا نہیں خیال کہ ہم ترقی کا زینہ چڑھ سکیں گے، بلکہ بہت حد تک ممکن ہے کہ ہم مزید پستی کا شکار ہوجائیں گے۔ کبھی عاصمہ جہانگیر اور برکھا دت جیسے لوگوں نے ایک مشترکہ سول سوسائٹی کی سوچ کو پروان چڑھایا تھا اور امن کی آشا کے نام سے کچھ میڈیا ہاؤسز نے بھی کام کیا تھا، لیکن وہ چوں کہ حکومتی حکمت علمی تھی، اس وجہ سے امن کی آشا خراب ہوگئی…… لیکن جو آغاز عاصمہ جہانگیر اور برکھا دت نے کیا تھا، اس کو اگر ممکنہ طور پر بحال کیا جائے، تو بہت بہتر ہو سکتا ہے۔
آج بھی بھارت میں صرف برکھا دت نہیں بلکہ مہیش بھٹ، نوجوت سنگھ سدھو، کیپل دیو اور ہیما مالنی جیسے روشن خیال موجود ہیں، جو انسانیت کی بات کرتے ہیں…… اور خاص کر ’’عام آدمی سیاسی جماعت‘‘ تو بہت ہی لبرل اور انسان دوست ہے۔ اس طرح پاکستان میں ہم جیسے لاکھوں لوگ اس ’’کاز‘‘ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سو سول سوسائٹی کو جاگنا چاہیے اور دونوں معاشروں سے دلائل اور دانش کی بنیاد پر انتہا پسندی کو ختم کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اسی میں ہماری بقا بھی ہے اور ترقی بھی۔ وگرنہ دوسری صورت میں بس جذباتی نعرے اور سیاست دانوں کی چالاکیاں ہیں۔
آج آسٹریلیا کی فتح کا جشن لاہور کی سڑکوں پر ہے، کل پاکستان کی شکست کا جشن محض چند کلومیٹر دور دہلی کی سڑکوں پر ہوگا اور ہم نفرت جنگ کی وادیوں میں جلتے رہیں گے اور دنیا ترقی کرتی رہے گی۔ اگر یہ سادہ بات سمجھ نہیں آتی، تو جہالت و جذباتیت کی وادیوں میں انجان راستوں پر سفر جاری رکھیں جو گذشتہ 76 سال سے جاری ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔