وکی پیڈیا کے مطابق امید فاضلی (Ummeed Fazli)، نام ور شاعراور مرثیہ نگار، 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
والد کا نام سید محمد فاروق حسن فاضلی تھا۔ ڈبائی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرٹھ گئے جہاں سے میٹرک کیا۔ ازاں بعد علی گڑھ محمڈن کالج اور یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور پھر 1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکاونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ 1952ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل قیام کیا۔ ملٹری اکاؤنٹس کے ادارے ہی میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ اُس وقت کراچی کے ایک مجلہ ’’سیپ‘‘ کے مدیر نسیم درانی صاحب نے جب ’’الفاظ‘‘ کا اجرا کیا، تو امید فاضلی کو اس کی ادارت سونپ دی۔
شاعری کی ابتدا 15 برس کی عمر میں کی، پہلے شکیل بدایونی اور پھر نوح ناروی سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ ابتدا میں ’’امید ڈبائیوی‘‘ کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ بعد ازاں امید فاضلی کا قلمی نام اختیار کیا۔ ابتدائی شہرت غزل سے ہوئی۔ تاہم بچپن سے مرثیہ خوانی کرنے کے باعث 1949ء سے مرثیہ گوئی کے میدان میں اپنا قلم رواں کیا اور ملک گیر شہرت پائی۔ فنِ شاعری میں ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل، نظم، سلام، نوحہ، حتی کہ گیت بھی لکھے۔ امید فاضلی کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔
امید فاضلی کی تصانیف میں ’’دریا آخر دریا‘‘ ( غزلیات کا پہلا مجموعہ ) 1979ء، اس شعری مجموعے کو آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔ ’’میرے آقا‘‘ ( نعتوں کا مجموعہ) 1984ء، اس کو رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا۔
’’سر نینوا‘‘ (مرثیوں کا مجموعہ) 1982ء کو میر انیس ایوارڈ عطا کیا گیا۔ ’’مناقب‘‘ (منقبتوں کا مجموعہ )، ’’پاکستان زندہ باد‘‘ ( قومی شاعری کا مجموعہ) 1988ء۔ ’’تب و تاب جاودانہ‘‘ (قومی شاعری کا مجموعہ) 1991ء۔ آخری مجموعۂ کلام ’’زندہ گفتگو‘‘ ہنوز تشنۂ طباعت ہے۔
امید فاضلی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جانے کب طوفان بنے اور رستہ رستہ بچھ جائے
بند بنا کر سو مت جانا، دریا آخر دریا ہے
آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
زندگی میں ہی کس نے یا د کیا
بعد میں کس کو یا د آ ؤ گے
28 اور 29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں انتقال کرگئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔