تبصرہ نگار: اقصیٰ سرفراز
چارلس ڈکنز سے میرا پہلا تعارف "A Tale Of Two Cities” سے ہوا۔ چوں کہ یہ کتاب میرے پاس انگلش میں موجود تھی، سرورق بھی کافی خوب صورت تھا، تو دل میں بار بار کتاب کو پڑھنے کی ایک مدھم سی خواہش پیدا ہوتی تھی…… مگر پھر وہی بات کہ انگریزی کتب پڑھتے وقت مجھے چس نہیں آتی، سواد نہیں آتا…… اور بلاشبہ متن کی سمجھ بھی نہیں آتی۔ ورنہ سرسری طور پہ کتاب کو پڑھنا اور واپس شلف میں لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اصل معنوں میں کتاب سے لطف اندوز ہونے کے لیے مَیں نے اس کا اُردو ترجمہ پڑھا…… اور پہلے صفحے کی پہلی سطر پہ ہی ’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کو دل چاہا۔ اور دل سے ایک ہی آواز آئی: ’’لفظوں کا تلاطم!‘‘
تلاطم میں دو شہروں کی کہانی ہے، دو صدیوں کی کہانی ہے، دو طبقوں کی کہانی ہے۔
انقلابِ فرانس پر لکھی گئی یہ شاہ کار تحریر لندن اور پیرس دو شہروں کی دو طبقوں، دو قوموں کی کہانی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کیتھرائن مینسفلیڈ کے بہترین افسانے (تبصرہ) 
چالیس چراغ عشق کے 
جہاں گرد کی واپسی (تبصرہ) 
پائیلو کوئیلہو کا ناول ’’گیارہ منٹ‘‘ (تبصرہ)  
ننھا شہزادہ (تبصرہ) 
کافکا کے افسانے (تبصرہ) 
چارلس ڈکنز انگلستان کے مشہور و معروف ناول نگار اور صحافی تھے۔ اُن کا شمار 19ویں صدی کے اُن بااثر ادیبوں کی فہرست میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے وکٹورین دور کی ایک جامع تصویر پیش کی، جو بعد میں معاشرتی تبدیلیاں لانے میں مددگار بھی ثابت ہوئی۔
چارلس ڈکنز کی سوانح حیات لکھنے والے ’’کلیئر ٹامالین‘‘ (Claire Tomalin) کہتے ہیں کہ چارلس ڈکنز کی معاشرتی تصویر کشی آج بھی اُن کی سوچ کے عین مطابق ہے۔ وہی امیر و غریب میں پایا جانے والا فرق، سرکاری معاملات میں بدعنوان افراد کی موجودگی، اراکینِ پارلیمنٹ کی ریشہ دوانیاں اور اس قسم کی دیگر سماجی برائیاں آج کے دور میں بھی انسانوں کے ساتھ سائے کی طرح متحرک ہیں۔ ان تمام کی نشان دہی اور احاطہ چارلس ڈکنز نے انتہائی مہارت سے اپنے اس تاریخی ناول (دو شہروں کی کہانی ) میں بھی کیا ہے۔
چارلس ڈکنز کے مطابق یہ ناول اُنھوں نے ’’تھامس کارلائل‘‘ (Thomas Carlyle) کے ’’انقلابِ فرانس‘‘ (The French Revolution) سے متاثر ہوکر لکھا ہے ۔
انقلابِ فرانس کے گرد گھومتا یہ تاریخی ناول دو طبقوں کی کہانی پر مشتمل ہے۔ پہلا طبقہ رومن کیتھولک چرچ سے متعلق افراد کا تھا۔ یہ فرانس کے 10 فی صد زمین کے مالک تھے۔ امیر امرا پر مشتمل یہ طبقہ فرانس پہ اپنی حکومت کا سکہ جمائے بیٹھے ہے اور اپنے سے نچلے طبقے سے وابستہ لوگوں کو ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔
مصنف نے جس طرح اپنی قوتِ تخیل سے واقعات اور کرداروں کو پیش کیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔
کہانی کو پڑھتے پڑھتے ایک پل کے لیے ایسا محسوس ہوا جیسے میں خود بھی اس کہانی کا کوئی جیتا جاگتا کردار ہوں۔
392 صفحات پہ مشتمل یہ ناول کہانی کے اعتبار سے جان دار ہے۔ تاریخی ناول کو ذائقے دار بنانے کے لیے مصنف نے دو مخالف جنس کی ’’لو اسٹوری‘‘ (Love Story) شامل کرکے کہانی کی چاشنی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پہ یقین کیجیے کہ یہ کہانی آپ کو بالکل بور نہیں کرے گی۔
چارلس ڈکنز کی اس کتاب کو اُردو کے قالب میں فضل الرحمان نے ڈھالا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔