کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں ہماری ٹیم نے انتہائی مایوس کن کارکردگی دکھائی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کپتان سمیت پوری ٹیم ہی مستعفی ہو جاتی، لیکن ہمارے کھیلوں میں بھی سیاست آچکی ہے اور سیاست کو بھی کھیل بنا دیا گیا ہے۔ اسی لیے تو ہمیں ہر طرف سے مار پڑ رہی ہے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
ہمارے سیاست دان ہوں یا کھلاڑی، ٹی وی سکرین پر اپنے آپ کو ایسے دکھاتے ہیں کہ پاکستان ان لوگوں نے بناکر ہمارے حوالے کیا ہے۔ اور تو اور جیسے 1992ء کا ورلڈ کپ یہ لوگ جیت کرلائے ہیں۔ جو جیت کرآیا تھا، اس کو ہم نشانِ عبرت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاسی میدان میں جتنی تباہی ہوچکی ہے، اُس سے بڑھ کر ان لوگوں نے ہمارے کھیلوں کا بھی بیڑا غرق کردیا۔ ایسے ایسے افراد کو پی سی بی سمیت مختلف فیڈریشنوں کا سربراہ بنا رکھا ہے، جنھوں نے شاید ہی کبھی کوئی کھیل کھیلا ہو، سوائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے۔
ایک وقت تھا جب ہم ہر کھیل کے چمپئن تھے۔ پھر جیسے جیسے ہماری سیاست گندی ہوتی چلی گئی، اُسی طرح ہمارے کھیلوں پر بھی نحوست کے سائے پڑنا شروع ہوگئے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہر کھیل میں سوائے ہار کے ہمارے پلے کچھ نہیں پڑتا۔
پاکستان میں سیاسی بحران تو ہے ہی، ساتھ میں کھیلوں کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے۔ یہ ان نااہل اور نکمے سیاست دانوں کی بدولت پیدا ہوا، جنھوں نے قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ جو بندہ میرٹ پر پولیس میں کانسٹیبل بھرتی نہیں ہوسکتا، وہ حکم ران بن جاتا ہے، اور جس نے کبھی ڈھنگ کا کوئی کھیل بھی نہ کھیلا ہو، اُسے کھیلوں کا وزیر اور چیئرمین بنا دیا جاتا ہے۔
حکم رانوں کی مراعات کا تو سب کو بخوبی اندازہ ہوگا۔ آج آپ کو کرکٹ میں بدنامی کا باعث بننے والوں کی تنخواہوں کا بھی بتاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی ) کے اہم عہدوں میں ایک چیئرمین، ایک چیف ایگزیکٹو، ایک چیف آپریٹنگ آفیسر اور ایک چیف فنانشل آفیسر سمیت 12 ڈائریکٹر، آٹھ سینئر جنرل مینیجر،تین جنرل مینیجر، پانچ کوچ، درجنوں دوسرے چھوٹے بڑے آفیسر حتیٰ کہ صحافیوں سے ملاقات کے لیے دو ڈائریکٹر، ایک سینئر مینیجر اور چار دیگر مینیجر رکھے گئے ہیں۔
ایک خاتون صرف اس اطلاع کے لیے ہے کہ ٹیم ہاری یا جیتی؟ ان کے علاوہ درجنوں اور لوگ بھی ہیں، جو حکومتی مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
صفر پر آوٹ ہونے والا کرکٹ کا اولین کھلاڑی
دنیائے کرکٹ میں انڈیا کا انوکھا اعزاز
کچھ عظیم کرکٹر انتخاب عالم کے بارے میں
کرکٹ کی دنیا کا تیز ترین سٹمپ آوٹ
اب ایک دل دہلا دینے والی مختصر داستان ان کی تنخواہوں کے حوالے سے بھی گوش گزار کرتا چلوں۔ ایک اور بات یاد رکھنے والی یہ بھی ہے کہ ہمارے ان مایہ ناز کھلاڑیوں میں جو ہر میچ میں ملک کا نام روشن کرتے ہیں، کرکٹر بننے سے پہلے کسی کام کے نہیں ہوتے تھے، لیکن جیسے ہی اُنھیں قوم کی خدمت کے لیے سلیکٹ کرلیا جاتا ہے، یہ زمین سے آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔ جتنی تنخواہ یہ لوگ لیتے ہیں، اُتنی تو ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کرنے والا بھی نہیں لیتا، جس نے ہماری آنے والی نسل کو تیار کرنا ہوتا ہے۔
آپ اندازہ لگائیں کہ چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ 32 لاکھ روپے ماہ وار، باؤلنگ، فیلڈنگ وغیرہ کے پانچ کوچ، فی کوچ 20 لاکھ روپے ماہ وار،31 ڈائریکٹر اور جنرل منیجر وغیرہ فی کس کم از کم 10 سے 15 لاکھ روپے ماہ وار۔
اب ذرا کھلاڑیوں کی عیاشیاں بھی دیکھیں۔ 35 رجسٹرڈ کھلاڑی ہیں، ہرکھلاڑی 50 ہزار سے آٹھ لاکھ روپے (چھے کھلاڑی آٹھ لاکھ روپے ماہ وار لے رہے ہیں)، ہر کھلاڑی کو میچ کے دوران میں 35 ہزار روپے روزانہ اضافی الاؤنس، صرف ایک کھلاڑی سرفراز احمد کی ایک سال کی آمدنی چار کروڑ 68 لاکھ روپے وہ بھی ڈالروں میں تھی…… جس ملک کی 80 فی صد آبادی شدید غربت، فاقوں اور بیماریوں کی زد میں ہو اور ایک کروڑ سے زاید بچے مزدوری کرتے ہوں، وہاں صرف کرکٹ کے میدان میں ہارنے والوں کے لیے اتنی وحشت ناک لوٹ مار جس کے نتیجے میں ذلت آمیز اورشرم ناک شکستیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر یہ نظام بھی باقی کھیلوں کی طرح چلتا رہا، تو پھر وہ دن دور نہیں جب فٹ بال، ٹینس، ہاکی، والی بال، سکواش اور دوسرے کھیلوں کی طرح کرکٹ میں بھی ایسے افراد آجائیں گے جو کھلاڑی بنا کر ویزے لگوانے کا کام کریں گے۔ ایک بار تو اسی چکر میں ہماری پوری ٹیم غائب ہو گئی تھی، جس سے ملک کی بدنامی بھی ہوئی تھی…… لیکن ان معاملات میں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ سب پیسے کا کھیل ہے۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کی دنیا بھر سے جیت کی خبریں آتی تھیں۔ ہمارا عروج سے زوال کی طرف آنا اچانک نہیں ہوا، بلکہ اس کے پیچھے سالوں کا سفر ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ ماضی میں پاکستان، مخالف کھلاڑیوں کے لیے ایک ڈر اور خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ہاکی میں پاکستان چار بار ورلڈ کپ جتنے والی ٹیم ہے۔ سکواش، والی بال اور سنوکر میں ہماری ٹیم کا ڈنکا بجتا تھا۔ سکواش میں تو جیسے جہانگیر خان، جان شیر خان کے علاوہ دنیا میں کوئی کھلاڑی تھا ہی نہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ادارے بھی مثالی ہوا کرتے تھے اور پھر بلندی سے پستی اور پھر ذلت کا سفر بھی ہم نے خوب دیکھا۔ وجہ صرف رشوت، لالچ اورتعلق ہے۔ میرٹ کو نظرانداز کرکے جاہلوں کو اہم عہدوں پر لگایا گیا، پسند اور ناپسند کی دوڑ میں ہم نے میرٹ کی ایسی دھجیاں اُڑائیں کہ ہار کے بعد بھی ہم شرمندہ نہیں ہوتے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری ہاکی ختم، سکواش ختم، سنوکر ختم اور اب خیر سے کرکٹ بھی ختم۔
سنوکر سے یاد آیا کہ یہ بھی غریب لوگوں کا کھیل ہے۔ بغیر کسی مدد کے یہ لوگ اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے خود سے مقابلے کرواتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے محمد یوسف اور محمد آصف سنوکر کے ورلڈ چمپئن بن جاتے ہیں۔ اس کے بعد محمد یوسف کے ساتھ ہماری پولیس نے کیا کیااور وہ بے بسی کی تصویر بنا رہا۔ کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔
ہمارے کھیلوں کی طرح ہمارا نظام بھی بگڑچکا ہے، بلکہ بگڑتے بگڑتے ختم ہونے کے قریب ہے۔ کوئی شخص اور کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نظر نہیں آتا، جو اس نظام کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے، اُسے مل جل کر کرپٹ مافیا جینے نہیں دیتا۔
خیر، ان سب باتوں کے باوجود ایک اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہاکی کی بہتری کے لیے ہاکی کے بہترین کھلاڑی رانا مجاہد کو ہاکی فیڈریشن کا سیکریٹری بنا دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ وہ پاکستان میں ہاکی کو ایک بار پھر گلی کوچوں کا کھیل بنا دیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم جب چھوٹے بچے تھے، اُس وقت ہاکی کا جنون تھا، جس کے پاس ہاکی نہیں ہوتی تھی، وہ اسی سائز کی کوئی نہ کوئی لکڑ ا یا ڈنڈا اُٹھا کر ہاکی ضرور کھیلتا تھا۔ مَیں نے خود اُس ہاکی نما ڈنڈے سے ہاکی کھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے محلے فتح شیر کالونی ساہیوال میں دو بھائی اکرم اور اسلم ایسی شان دار ہاکی کھیلا کرتے تھے کہ ان کاکوئی ثانی نہیں تھا، جب کہ ہمارے تعلیمی ادارے گورنمنٹ بٹالہ مسلم ہائی سکول اور پھر گورنمنٹ کالج ساہیوال کی ہاکی ٹیم بھی لاجواب تھی۔ یہ صرف ایک محلے اور ایک سکول کی بات نہیں تھی بلکہ پاکستان کے ہر گلی محلے میں ایسے کھلاڑی موجود تھے، پھر جن سے ہاکی کا فلائنگ ہارس بھی ملا اور گول کرنے والی مشین بھی ملی…… لیکن اب ہاکی کے کلب غیر آباد ، گلیاں سونی اور نئے کھلاڑی پیدا ہونا بند ہوچکا ہے۔ کیوں کہ ہم نے اب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کھیل جو شروع کردیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔