نوجوان کیوں ووٹ نہیں ڈالتے؟

Blogger Ikram Ullah Arif

نوجوان ووٹ کیوں نہیں ڈالتے؟ یہ سوال اُن دیگر سوالات میں سے ایک تھا۔ واقعی یہ سوال بہت اہم ہے۔ کیوں کہ ملکی آبادی میں 60 فی صد سے زیادہ حصہ نوجوانوں کا ہے۔ سونے پر سہاگا یہ ہے کہ اِس وقت ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو ’’یوتھ‘‘ یا نوجوانوں کی پارٹی سمجھا جا رہا ہے۔
حیران کن بات مگر یہ ہے ’’گیلپ پاکستان‘‘ کے مطابق گذشتہ دو عام انتخابات میں صرف 31.5 فی صد یوتھ (نوجوان لڑکے اور لڑکیاں) نے ووٹ ڈالا ہے، جب کہ نوجوانوں کے مقابلے میں خواتین ووٹر کی تعداد 40 فی صد سے زیادہ رہا ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
بھارت میں 2019ء کے انتخابات میں 50 فی صد سے زاید نوجوانوں نے ووٹ ڈالا تھا۔ کیا پاکستان میں یوتھ کو ایک خاص پارٹی سے نتھی کرکے باقی پارٹیوں نے خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے؟ اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈنا چاہیے۔
اگرچہ یوتھ کے نام سے ’’بدنام‘‘ یا ’’مشہور‘‘ پارٹی نے بھی یوتھ کو کوئی خاص وقعت نہیں دی۔ مثلاً ’’پلڈاٹ‘‘ (پارلیمانی ترقی اور شفافیت کے لیے کوشاں ایک غیر سرکاری پاکستانی تنظیم) کے مطابق گذشتہ عام انتخابات یعنی 2018ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ نوجوانوں کو پارٹی ٹکٹ دینے والی پارٹی ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ (ٹی ایل پی) تقریباً 25 فی صد کے ساتھ سرِفہرست ہے، جب کہ تحریکِ انصاف نے تقریباً 17 فی صد نشستیں یوتھ کو دی تھیں۔ باقی بڑی پارٹیوں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔
گذشتہ ہفتے ’’پلڈاٹ‘‘ نے ’’یو این ڈی پی‘‘ کے اشتراک سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا، جس میں الیکشن کمیشن کے اعلا اہل کاروں سمیت ’’پلڈاٹ‘‘ اور ’’یو این ڈی پی‘‘ کے ذمے داروں کے علاوہ مقررین میں راقم بھی شامل تھا۔ حاضرین میں یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر، ڈین صاحبان، اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ حاضرین میں سے اکثریت جو نوجوانوں کی تھی، کا کہنا تھا کہ ہم اس لیے جمہوری عمل سے نالاں ہیں، کیوں کہ یہاں جموریت شفاف نہیں اور دھاندلی نہیں بلکہ بد ترین دھاندلی ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان محض کٹھ پتلی ہے اور ’’غیر سیاسی اداروں‘‘ کی طرف سے مداخلت زیادہ ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سلیکشن نہیں، الیکشن چاہیے  
سیاسی سہ روزوں اور چلّہ کشی کا دور 
ڈراما نیا مگر سکرپٹ پرانا ہے 
انتخابی اصلاحات وقت کا تقاضا ہیں 
الیکشن کمیشن کے اہل کاروں کا کہنا تھا کہ ہمارا ادارہ گوکہ آئینی ہے، لیکن ہم صرف قانون پر عمل کرسکتے ہیں، قانون بنا نہیں سکتے۔ اب اگر سیاست دانوں نے قانون ایسا بنایا ہے، جس میں ملک کی وسیع آبادی یعنی ’’یوتھ‘‘ کو نمایندگی دینے کی بات ہی نہیں یا اُن کے ووٹ کو جیت کے لیے کسی خاص فی صد سے منسلک نہیں کیا گیا، تو الیکشن کمیشن کا ادارہ اس میں کیا کرسکتا ہے؟
مثلاً: قانون میں یہ ہے کہ جس حلقے میں زنانہ ووٹ دس فی صد سے کم ہو، وہاں انتخابات کالعدم تصور ہوں گے جب کہ موجودہ انتخاباتی قوانین میں یوتھ کے حوالے سے بالکل خاموشی ہے۔
قارئین! اپنی باری پر مَیں نے چند گزارشات پیش کیں جن کی تلخیص کچھ یوں پیشِ خدمت ہے:
ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی ناپختہ ہے۔ کیوں کہ ملکی تاریخ میں نصف سے زیادہ وقت آمریت میں گزرا ہے۔ لہٰذا جو لولی لنگڑی جمہوریت ہے، اس کو بھی برباد کرنے میں ایک اہم وجہ طلبہ یونین پر ایک آمر کی طرف سے لگائی گئی پابندی ہے، جس کی وجہ سے تربیت یافتہ سیاست دانوں کے بجائے خاص اداروں کے بند کمروں میں ’’ہائبرڈ سیاست دانوں‘‘ کی کھیپ تیار کی گئی، جو بہ وقتِ ضرورت ضمیر بیچنے کو مصلحت کہتے ہیں۔
علاوہ ازیں ریاستی سرپرستی میں سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے۔ سیاست دانوں کو ہر برائی کے لیے ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ نتیجتاً نوجوان نسل نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ کچھ قصور سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے، جنھوں نے ابھی تک نوجوانوں کو صرف سستے سیاسی نعروں سے دھوکا تو دیا ہے، مگر ان کے لیے کماحقہ کوئی پالیسی یا ان کو نمایندگی دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے۔
اس بات میں بھی مبالغہ آرائی کی جاتی ہے کہ اداروں کی سیاسی مداخلت یا دھاندلی نے نوجوانوں کو مایوس کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبھی کسی ادارے نے کسی کو نہیں کہا ہوگا کہ ووٹ مت ڈالیں، جب ہم خود ووٹ دینے نہیں جاتے، تو نتیجتاً ہر کسی کو جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کا موقع ملتا رہے گا۔
یاد رہے کہ دھاندلی ’’پولنگ ڈے‘‘ پر کم اور پہلے یا بعد میں زیادہ کی جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان ووٹ کی اہمیت کو جان کر ووٹ ڈالنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھیں اور پھر دھاندلی کی روک تھام کے لیے ڈٹے رہیں۔ امید یہی ہے کہ خستہ حال ہی سہی مگر رینگتی گاڑی کی مانند یہ کم زور جمہوریت بھی منزل پر پہنچ ہی جائے گی۔ سفر کم از کم 20 سال اور تسلسل کے ساتھ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس ملک کی سالمیت صرف جمہوریت میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں۔ جمہوریت کی بہتری کے لیے اس میں نوجوانوں کی شرکت بہرصورت لازم ہے۔ کیوں کہ نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں اور جمہوریت ملکی سالمیت کی ضامن……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے