سندھ میں بلدیاتی ضمنی الیکشن کا نتیجہ آ گیا ہے۔ حسبِ توقع پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا ہے۔ باقی ضمنی انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی ٹرن آؤٹ انتہائی کم بلکہ مایوس کن رہا ہے۔
سندھ میں ہونے والے عام بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سمجھ بوجھ رکھنے والے بڑے بڑے سیاسی مبصرین، صحافیوں اور سیاست دانوں کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی اُن انتخابات میں اس بری طرح پٹ جائے گی۔ جماعت اسلامی کے بارے میں بھی یہ گمان نہیں کیا جا رہا تھا کہ کراچی میں وہ اس قدر شان دار طریقے سے کم بیک کرے گی، مگر ایسا ہوگیا۔ ایک وقت تھا کہ کراچی پر جماعت اسلامی کا غلبہ تھا۔ الیکشن قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے یا بلدیاتی، جماعت اسلامی سنگل لارجسٹ پارٹی کے روپ میں سامنے آتی تھی۔ پھر ایک منصوبے کے تحت ایم کیو ایم کو کراچی میں لانچ کیا گیا اور اِس قدر اُسے مقبولیت دلائی گئی کہ اُس کے سامنے باقی سب چراغ بجھ گئے۔ لانے والوں کا کام لا کر مسندِ اقتدار پر بٹھانا اور پہلی ٹرم میں ہر ممکن سہولت بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ’’سلیکٹڈ‘‘ کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ سلیکٹر کی توقعات پر کس حد تک پورا اُترتا ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنی پالیسی ایسی بنائی کہ کراچی میں ہی نہیں بلکہ حیدر آباد اور سکھر میں بھی خود کو منوا لیا۔ الطاف حسین کو ایک موقع ملا اور اُس نے اُس موقعے سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ایسا ہی ایک موقع چوہدری برادران کو بھی ملا تھا جب مرکز اور پنجاب میں پرویز مشرف نے اُن کی حکومت بنوائی تھی مگر چوہدری برادراُن کی سیاست کا انداز ہمیشہ طفیلی رہا ہے۔ اِس لیے وہ کوئی بھی بولڈ فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ اُنھوں نے خود کو پرویز مشرف کے ہاتھوں میں ربر سٹیمپ بنائے رکھا، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کے ساتھ جڑنے والا ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ پرویز مشرف ہی کا وفادار رہا اور اگلے الیکشن میں چوہدری برادران کی ق لیگ کا صفایا ہوگیا۔ یہ صفایا پرویز مشرف نے خود کروایا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کی مدد سے اپنی صدارت کو دوام دینا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مسلم لیگ ن کی مدد سے پرویز مشرف کو ہی چلتا کر دیا۔
ایسا ہی ایک موقع 2018ء میں عمران خان کو بھی عطا کیا گیا، جنھوں نے پہلے پہل تو اپنے لانے والے جنرل باجوہ کی تعریفوں کے پل باندھے رکھے۔ بدقسمتی سے عمران خان ڈلیور نہ کرسکے۔ 2028ء تک اُنھیں اقتدار میں رکھنے کا منصوبہ تھا، لیکن وہ اپنی پالیسیوں اور بے پناہ مہنگائی کے سبب اِس قدر غیر مقبول ہوگئے کہ اُن کا پارٹی ورکر بھی مایوس ہوگیا۔ اُنھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنے لانے والوں کے خلاف بھی محاذ کھول لیا۔ عمران خان کی مرضی کے سیٹ اَپ کے منصوبے کو اَپ سیٹ کر دیا گیا۔ چناں چہ عمران خان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ’’بے فیض‘‘ ہونے کے بعد سندھ کے بلدیاتی انتخابات عمران خان کا پہلا ٹیسٹ تھا۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کی صلح اور اُسے اُن انتخابات سے باہر رکھنے سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ ایم کیو ایم کے ’’گناہ‘‘ معاف ہو چکے ہیں اور مستقبل کے عام انتخابات میں سندھ سے پی ٹی آئی کو کامیابی ملنا بہت مشکل ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات کے التوا کا خدشہ
ایک ملین ڈالر کا سوال، انتخابات بروقت ہوں گے؟ 
کیا فوری انتخابات حل ہیں؟ 
اگر بات سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں ٹرن آؤٹ پر کی جائے، تو یہ بہت مایوس کن تھا۔ دس سے بارہ فی صد ٹرن آؤٹ رہا، جس کی وجہ سے الیکٹورل حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کا صرف پانچ فی صد لینے والے امیدوار بھی کامیاب ہوگئے۔ یہ کیسا لطیفہ ہے کہ کامیاب ہونے والے امیدوار کوجن 95 فی صد لوگوں نے ووٹ نہیں دیا، وہ اُن کا بھی نمایندہ بن گیا۔
یہ ہماری سیاست کا بہت بڑا المیہ ہے کہ کُل ووٹوں کا پانچ سات فی صد اور کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا تیس فی صد لینے والا بھی منتخب ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ عام انتخابات میں تین امیدوار پچاس پچاس ہزار سے زاید ووٹ حاصل کرلیتے ہیں اور اُن میں سے ایک چند سو ووٹوں کے فرق سے جیت جاتا ہے، جب کہ تین چار مزید امیدواران بھی پندرہ بیس ہزار ووٹ لے جاتے ہیں۔ یوں کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا تیس فی صد لینے والا کامیاب ہو جاتا ہے جب کہ ستر فی صد ووٹروں نے اُسے مسترد کیا ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا ہوتا، ایک طرح سے اُنھوں نے بھی خاموش احتجاج کے ذریعے اُسے مسترد ہی کیا ہوتا ہے۔
یہ ہمارے مینڈیٹ کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟ وقت آگیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ نوے فی صد سے کم ٹرن آؤٹ والے حلقے میں انتخاب کالعدم قرار دے کر دوبارہ الیکشن کروایا جائے۔ ووٹ کاسٹ نہ کرنے والے ووٹروں کو قانون سازی کر کے کم از کم تین ماہ قید کی سزا دی جائے، تاکہ ووٹرز کو ووٹ جیسے اہم فریضے کی ادائی کی اہمیت کا احساس ہوسکے۔ کل کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا کم از کم پچاس فی صد لینے والا اُمیدوار کامیاب قرار دیا جائے، تاکہ اُسے عوام کا صحیح اور منتخب نمایندہ کہا جاسکے۔ اگر کوئی امیدوار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کرسکے، تو سب کو ناکامیاب قرار دے کر پہلی دو پوزیشنوں پر آنے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ الیکشن کروایا جائے۔
ایک تجویز یہ بھی قابلِ عمل ہے کہ بیلٹ پیپر پر جہاں تمام امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان پرنٹ کیے جاتے ہیں، وہاں پر آخر میں ایک خانہ ’’مسترد‘‘ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ووٹر الیکشن میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتا، تو وہ ’’مسترد‘‘ والے خانے میں مہر لگا کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرسکے۔ مسترد کے ووٹ سب سے بڑھ جائیں، تو اس حلقے میں تمام امیدواروں کو نا اہل قرار دے کر نئے امیدواروں کے ساتھ نیا الیکشن کروایا جائے۔ اس طریقے سے پارٹیوں میں ’’پیرا شوٹرز‘‘ کی بھی پارٹی کارکنوں کے ذریعے حوصلہ شکنی کی جاسکے گی۔ نیز ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کا یہ جواز بھی ختم ہوجائے گا کہ وہ کسی امیدوار کو بھی ووٹ کا حق دار نہیں سمجھتے، لہٰذا اُنھوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔ وہ تمام امیدواروں کو مسترد کرکے اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ موجودہ سسٹم میں بعض حلقوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب امیدوار ہی قریباً ایک جیسے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ووٹرز کو مجبوراً اُن سب میں سے ’’کم برے‘‘ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ مسترد کرنے کا اختیار ہونے کی صورت میں ووٹر اپنا حقِ رائے دہی موثر طور پر استعمال کرسکے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔