یہودی اور یہودیت

Blogger Abu Jaun Raza

یہودی لفظ سے ایک ایسا شخص ذہن میں آتا ہے، جو کالا کوٹ اور ٹوپی پہنا ہوا ہو، اس کی لمبی داڑھی ہو اور وہ کسی دیوار کے آگے ہل ہل کر کسی کتاب سے کچھ پڑھ رہا ہو۔
ابو جون رضا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/raza/
یہودیوں کی 2 ہزار سالہ تاریخ ہے، جس کے بارے میں لوگوں کو بہت کم معلوم ہے۔ اسی طرح سے یہ بات بھی کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگی کہ کالا کوٹ اور ٹوپی پولینڈ کے یہودی پہنتے تھے اور یہ اُن کی پہچان تھی۔ ہمارے یہاں تو بس یہی تصور رائج ہے کہ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جس کا کام صرف مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا ہے۔
یہودی کی عام تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’خدا کے ساتھ ایک معاہدے یا خصوصی تعلق کی بنا پر جداگانہ تشخص قائم رکھنے والے لوگوں کا گروہ۔‘‘
اگرچہ یہودی کی کوئی متعین تعریف پر اتفاق رائے موجود نہیں۔
یہودی ’’حلاخہ‘‘ یعنی ایک اندازِ حیات کی بات کرتے ہیں، جو عبرانی لفظ ’’جانا‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا مطلب ’’راستہ‘‘ لیا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر چیز کو خدا کی مرضی کے تابع خیال کیا جاتا ہے۔
یہودیت کا آغاز سرزمینِ اسرائیل یعنی موجودہ فلسطین سے ہوا۔ اُن کی آبادی اِس وقت دنیا میں 1 کروڑ 80 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے، جس میں سے سب سے زیادہ یہودی اِس وقت اسرائیل میں اور اِس کے بعد یو ایس میں رہتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر فرانس سب سے زیادہ یہودی آبادی والا ملک ہے، جہاں تقریباً 4 لاکھ سے کچھ اوپر یہودی آباد ہیں۔
یہودیت کبھی ایک جیسی روایت کی حامل نہیں رہی۔ یہودیت ایک خدا پر ایمان رکھتی ہے اور اس دنیا کو قابل فہم اور بامقصد مانتی ہے۔ ان کے خیال میں اس کائنات کے پیچھے ایک واحد الوہی ذہانت کارفرما ہے۔
اگرچہ یہودیت کی تمام صورتوں کی جڑیں عبرانی بائبل میں موجود ہیں، مگر اس کو ’’عہد نامہ عتیق‘‘ کا مذہب قرار دینا غلط ہوگا۔ معاصر یہودیت ربانی تحریک کا نتیجہ ہے جو فلسطین اور بابل میں ابتدائی مسیحی صدیوں میں نمودار ہوئی تھی۔ لہٰذا اسے ربانی یہودیت کہا جاتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی  
ایک یہودی، عاشقِ رسولؐ کیسے بنا؟
آرامی زبان میں ربی کا مطلب ’’میرا استاد‘‘ ہے۔ یہودی علما کو ’’ربی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صحائف کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کو تحریری توریت کے علاوہ ایک زبانی توریت بھی دی تھی، جو اُن سے آگے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی۔ اس کو ’’مشنہ‘‘ کہا جاتا ہے، جو زبانی توریت پر مشتمل ہے۔
مسلمان علما بھی نبی کریم پر اترنے والی وحی کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں، جن کو ’’وحی متلو‘‘ اور ’’وحی غیر متلو‘‘ کہا جاتا ہے۔
مذہبی یہودی کے لیے زندگی ایک مسلسل عبادت کا نام ہے۔ یہودی دن میں تین وقت (صبح، دوپہر اور شام) عبادت کرتے ہیں۔ عبادت کے لیے کم از کم دس آدمیوں کی جماعت کا ہونا ضروری ہے۔ کھڑے ہوکر دعا کرنا یہودی عبادت کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔
صبح کی عبادت میں راسخ العقیدہ یہودی کندھوں پر شال ڈالتے ہیں اور ایک دعائیہ کتب والا ڈبہ (ٹفلن) ساتھ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سر پر چھوٹی ٹوپی (کپاہ) پہنی جاتی ہے۔
ربانی یہودیت میں توریت کی تلاوت کرنا بھی عبادت سمجھا جاتا ہے۔ روزانہ عبادت کے دوران یہودی توریت، مشنہ اور تالمود کے اقتباس پڑھتے ہیں۔
کھانے پینے کے معاملے میں یہودی محتاط ہیں۔ حلال کھانوں کو شر کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کو گوشت اور دودھ کی مصنوعات اکھٹی کھانے کی اجازت نہیں۔
ان کے اہم تہواروں میں ’’پیساک‘‘، ’’شووت‘‘، ’’سوکوت‘‘، ’’حنوکہ‘‘ اور ’’روش ہشنہ‘‘ شامل ہیں۔
مذہب میں باقاعدہ داخلے کی تقریب کو ’’بارہ متزواہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
آج یہودی بالخصوص اسرائیل میں پائے جانے والے کچھ یہودی، رائج یہودی مذہب کو مسترد مگر جداگانہ نسلی برادری پر اصرار کرتے ہیں۔ مغرب میں آباد یہودی نسلی عناصر کو نہیں مانتے اور دعوا کرتے ہیں کہ وہ جداگانہ مذہب کے پیروکار ہیں۔ کچھ یہودی خود کو ثقافتی یہودی قرار دیتے ہیں۔ دنیا میں پائے جانے والے زیادہ تر یہودیوں کا ماننا ہے کہ وہ مذہبی کے ساتھ ساتھ نسلی جڑیں بھی رکھتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے