امریکہ کو انڈیا نے صرف ’’سی ای اوز‘‘ (CEOs) اور آئی ٹی ماہرین ہی نہیں بلکہ روحانیت بھی سپلائی کی ہے۔ اس سے بہت پیسا بنایا ہے ہندو روحانی اُستادوں اور مغرب کے سرمایہ داروں نے۔ مذہب کو ایک طرف کرکے دنیا ہی کو سب کچھ مان لینے کے بعد مغرب میں جو خلا پیدا ہوا، اس کو بھرنے کی ضرورت تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا ہونے والے مادی فوائد تو تھے، لیکن اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کو بھی کم کرنے کی ضرورت تھی، تو کچھ ایسا مرکب چاہیے تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو نقصان نہ ہو، روایتی خدا کو ماننے کی ضرورت بھی نہ پڑے، لیکن مذہب سے پیدا ہونے والے خلا کو بھی بھرا جاسکے۔ ایسے میں بدھ مت اور ہندو مذہب سے نچوڑی جانے والی روحانیت سے بہتر کچھ ہوہی نہیں سکتا تھا۔ اور اس نچوڑی ہوئی روحانیت کو تشکیل دینے میں بدھ مت اور ہندو مذہب کے علما نے کافی مدد کی مغرب کی اور اپنے مذہب کا خوب پرچار بھی کیا۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
اب بات کرتے ہیں اپنے علما کی۔
ایک مفتی صاحب جن کے سوشل میڈیا پر اچھے خاصے فین موجود ہیں، اُن کی ایک وڈیو کسی نے مجھے بھیجی اور کہا کہ میڈم دیکھیں، ان مولوی صاحب کے دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں سے پوچھے جانے والے سوالات اور ان کا رویہ کسی تیسری جماعت کے بچے جیسا ہے۔ انھیں اس مندر میں جانے سے پہلے تھوڑی تحقیق کرکے جانا چاہیے تھا۔
یہی فرق ہے ہمارے علما اور ہندو مہاراجوں میں۔ مہاراج اعلا تعلیم یافتہ تو ہیں ہی، لیکن اُنھوں نے مغرب میں اپنے مذہب کا پرچار کرنے اور بھگود گیتا کے پیغام کو عام کرنے کے لیے مغرب کے ذہن کو بہت اچھے سے سمجھا اور پڑھا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مغرب کے لیے ایسے فلسفیانہ انداز میں اپنے مذہب کو پیش کیا، جسے مغرب کی لبرل سوچ قبول کرے۔ اور صرف مغرب ہی نہیں، بلکہ انڈیا کی جدید نوجوان نسل بھی اسے سمجھے اور قبول کرے۔ یہ کام کرنے میں بہت محنت اور عقل لگتی ہے، جس کا ہمارے یہاں فقدان ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال ’’اسکون‘‘ (ISKCON) ہے، جس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس کے سینٹر پوری دنیا میں ہیں اور کئی مشہور شخصیات بھی اس سے جڑی ہیں۔ اس ادارے میں اعلا تعلیم یافتہ سوامی ہندو فلسفہ کے ساتھ ماڈرن دنیا پر بھی اپنی گرفت جمائے ہوئے ہیں۔ اُنھیں بڑی بڑی یونیورسٹی اور گوگل ٹاک وغیرہ میں لیکچر کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہ پوری دنیا میں روحانیت اور بھگود گیتا پر لیکچر دیتے ہیں۔
کسی مفتی کو اگر کبھی مدعو کیا گیا ہو لیکچر کے لیے، تو اس تحریر کے آخر میں دی گئی کومنٹ (Comment) والی جگہ میں بتا کر میرے علم میں ضرور اضافہ کیجیے گا!
آپ ان علما کو لاکھ برا بھلا کَہ لیں، تمسخر اُڑا لیں…… لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں ان کی طاقت ہماری باتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ لوگ ان کی بات مانتے ہیں۔ یہ ماڈرن دنیا میں ایک سات سالہ بچے کے ذہن کے ساتھ اسلام کا پرچار کرنا چاہتے ہیں، یہ واقعی میں ایک خواب یا فینٹسی میں جی رہے ہیں۔
مَیں ایک عام اور معمولی سی سائیکوتھراپسٹ ہوں، لیکن مجھے پھر بھی خود کو نفسیات کے علاوہ باقی کے معاملات اور ادب سے بھی روشناس کرانا پڑتا ہے۔ ’’مائنڈفلنس‘‘ کی تکنیک میرے اس کلائنٹ کے لیے کام کر جاتی ہے، جو اپنے مالی مسائل حل کرچکا ہے…… لیکن وہ نوجوان جو مجھے ’’ای میل‘‘ کرتا ہے۔ کیوں کہ تھراپی اس کی سکت سے باہر ہے، تو اُس کے مسائل کا حل صرف مراقبہ یا نفسیات کی مختلف تکنیک میں موجود نہیں۔
کوئی کلائنٹ ایسا ہوتا ہے جس کے سوالات فلسفیانہ ہوتے ہیں۔ چوں کہ گھر کے بڑے اور ملک کے ایسے سات سالہ ذہنیت والے مولوی صاحب ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے، تو اکثر وہ تھراپی میں ایسے سوالات کا جواب چاہتے ہیں، ایسے کلائنٹ کے علاج میں رٹے رٹائے نفسیات کے نظریات اکثر فیل ہوجاتے ہیں۔
نرگسیت پسندوں کے ابیوز سے گزرنے والے کی تکلیف کو سمجھنے اور نارساسسٹ کے رویے کو سلجھانے اور نام دینے کے لیے صرف نفسیات کی رٹی ہوئی چند کتابیں کام نہیں آتیں، معاشرے اور تاریخ کی ایک اچھی سمجھ درکار ہوتی ہے ایسے کلائنٹ کی مدد کرنے کے لیے۔ جب ایک عام سائیکوتھراپسٹ کو اتنے مختلف زاویوں اور اَدب کو سمجھنے کی ضرورت ہے، تو ایک عالم کو صرف اپنی مذہب کی کتاب تک محدود کیوں کر رہنا چاہیے؟
مختلف نظریات کو پڑھنے سے آپ کی سوچ اور شعور کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔
یہاں سائیکوتھراپسٹ ہو، یا عالم، یا پھر کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو، وہ اپنے شعبہ سے ہٹ کر کبھی نہیں سوچتا۔ ایک ہی لکیر کو پیٹتا رہتا ہے۔ مَیں نے مغرب سے سیکھا کہ کیسے وہاں ایک طبیعات دان بھی اکنامکس کی بہترین نالج رکھتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کا پروفیسر بھی فلسفہ، انسانی دماغ اور نیوروسائنس کی اعلا سمجھ رکھتا ہے۔ تبھی وہ لوگ پیچیدہ معاملات کو سمجھ پاتے ہیں اور اپنے مسائل کو حل کرپاتے ہیں۔
اسلام کا پرچار کرنے والے سن لیں کہ اگر اپنی سوچ اور مطالعہ کا دائرہ وسیع نہیں کیا، تو آپ کی اپنی نسلیں تک اسلام پر عمل نہیں کریں گی، دنیا میں پرچار تو رہنے ہی دیں۔
آپ اپنی محدود سوچ میں کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ اُس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ہیں جنھوں نے علم حاصل کرنے کے لیے چین تک جانے کا حکم دیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔