ابلاغیات (میڈیا) کی ایک اہم قسم ’’سیاسی ابلاغیات‘‘ ہے…… جس کے ذریعے سیاسی راہ نما عوام اور ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔
ابلاغیات کی اثر پذیری ہی کی وجہ سے عام ووٹر، ووٹ دیتے وقت کسی خاص پارٹی کا انتخاب کرتا ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
ابلاغ کی اصطلاح ازل ہی سے بہت وسیع معنوں میں مستعمل لفظ ہے…… اور آج کل تو ’’ڈیجیٹل میڈیا‘‘ نے اس کو مزید وسعت عطا کی ہے۔ لاؤڈ اسپیکر سے لے کر بینر، پوسٹر، اخبار، ریڈیو اور دیگر جدید ذرایع سمیت ابلاغ کی مختلف شکلوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سیاسی ابلاغیات دراصل پراپیگنڈے ہی کی ایک شکل ہے، جس کو ہر آمر نے استعمال کرکے اپنے مخالفین کو زدوکوب کیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جس طرح جمہوریت ابھی نامکمل اور لاغر ہے، اُسی طرح سیاسی ابلاغیات بھی سطحی اور منفی پیغامات سے بھرپور ہے۔ مثلاً مولانا فضل الرحمان اور اس کے ہم نوا عمران خان کو ’’یہودی ایجنٹ‘‘ کہتے رہے ہیں۔ جواباً عمران خانی ٹولہ مولانا کو ’’ڈیزل‘‘ کے نام سے پکارتا چلا آرہا ہے۔
اس قسم کی مثالیں اور بھی ہیں، مگر برخلاف اس کے پاکستان میں ’’پراپیگنڈا‘‘ کو خاصا فروغ ملا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں نصف سے زیادہ یہاں آمریت کا دور دورہ رہا ہے…… اور شاید آج بھی ’’آمریت‘‘ ہی کار فرما ہے۔ اگرچہ بظاہر ’’نگرانوں‘‘ کے بے اختیار چہرے میڈیا پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
قارئین! ذرا ذہن پر زور ڈالیں کہ ایک آمر کے مقابلے میں فاطمہ جناح کو غدار قرار دینے سے لے کر آج تک کتنے سیاست دانوں کے خلاف پراپیگنڈا کرکے اُنھیں ’’غدار‘‘ قرار دیا گیا۔
وقتی طور پر آمریت کے زیرِ اثر ’’پراپیگنڈا‘‘ کامیاب بھی ہوجایا کرتا ہے۔ عوام سیاست دانوں سے بے زار بھی ہوجاتے ہیں، جیسا کہ مشرف کی آمریت آنے پر کچھ لوگوں نے خوشی میں مٹھائی بھی تقسیم کی تھی…… مگر وقت گزرنے کے ساتھ آمریت ختم ہوجاتی ہے اور پراپیگنڈا ناکام ہوجاتا ہے۔ یوں سیاست پھر مقبول ہوجاتی ہے۔
جیسا کہ مشرف کے ہوتے ہوئے بھی نواز شریف پھر وزیرِ اعظم بنے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ 2018ء میں پھر ریاستی سرپرستی میں سیاسی ابلاغ کے ساتھ پراپیگنڈا شامل کرکے نواز شریف کو نااہل کروایا گیا۔ نتیجتاً عمران خان کی حکومت بنی۔ ن لیگ پر جبر و ظلم کا آغاز کیا گیا۔ نتیجتاً نواز شریف بیرونِ ملک چلے گئے…… اور اب پھر چار سال بعد آکے ابلاغ ہی کے ذریعے ایک منظر بنانے میں جت گئے ہیں کہ گویا وہی اس ملک وقوم کا اصل مسیحا ہے۔
یہ بیانیہ مگر کامیاب اس لیے نہیں ہوپا رہا کہ شاید پہلی مرتبہ ریاستی پراپیگنڈے سے ’’سیاسی ابلاغیات‘‘ کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے…… اور نواز شریف یا ریاستی آمریت کے مخالف عوام کھل کے تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان تنقید کرنے والوں میں عمرانی ٹولہ سرپرست ہے۔ وہ سیاسی ابلاغ کے موثر استعمال کے ذریعے عوام کی اکثریت کو یہ جتانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ ’’ریاستی پراپیگنڈے‘‘ کے ذریعے سیاست دانوں کو غدار اور مسیحا بنانے کا یہ چکر کب تک چلے گا؟
قارئین! ہم نے اوپر لکھا ہے کہ 2018ء میں خود عمرانی ٹولے کا سیاسی ابلاغ، ریاستی پراپیگنڈے کے ساتھ شامل ہوکر نواز شرف پر بھاری پڑا تھا۔ اب اگر نواز ٹولہ ایسا کررہا ہے، تو یہ حیران کن نہیں…… مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ آج کے حالات میں یہ سلسلہ کامیاب ہوسکتا ہے یا نہیں؟
ہم چوں کہ سیاسی ابلاغ کی پختگی کے قائل ہیں اور اس کے لیے مظبوط جمہوریت کا تسلسل ہی درکار ہے۔ باایں سبب ہم ریاست سے درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ ریاستی پراپیگنڈے کا دروازہ بند کیا جائے، تاکہ سیاسی ابلاغ موثر شکل اختیار کرے اور نتیجے میں منفی سیاسی جملوں کی بجائے جمہوری مثبت سیاسی ابلاغیات کا دور دورہ ہو، تاکہ جمہوریت ’’جمہور‘‘ کی راہنمائی کرسکے۔
دوسری طرف سیاست دانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ جمہوریت کی مالا جپنے والے جب اقتدار کے لیے جمہور کی بجائے غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بنتے ہیں، تو پھر ’’وہ کچھ‘‘ اُن کے ساتھ کیا جاتا ہے، جو تین بار نواز شریف کے ساتھ کیا جاچکا ہے یا اَب عمران خان کے ساتھ ہوتا ہوا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
مجھے یہ کہتے ہوئے بالکل عار محسوس نہیں ہورہی کہ ’’ڈراما نیا ہے، مگر سکرپٹ پرانا ہے۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔