خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے ایک وفد نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ہے۔ اس وفد میں تین نام سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق وفاقی وزیر علی محمد خان اور بیرسٹر محمد علی سیف بڑے اہم ہیں۔ ایک طرح سے اس وقت پی ٹی آئی میں یہ تینوں صاحبان کے پی میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ایک اور اہم نام بھی خیبر پختونخوا ہی سے تعلق رکھتا ہے، جو مراد سعید کا ہے، مگر وہ موجودہ وقت میں اشتہاری ہیں اور زیرِ زمین چلے گئے ہیں…… جب کہ اول الذکر تینوں نام تاحال عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
اس ملاقات کی خبرجب سامنے آئی، تو پی ٹی آئی کے ناقدین نے اس خبر کو خوب اُچھالا اور پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں مولانا فضل الرحمان کو نشانے پر لیے رکھا۔ اُن کے خلاف جلسوں میں نعرے لگوائے۔ حتیٰ کہ جنرل باجوہ نے جب اُنھیں ایسا کرنے سے روکا، تو اُنھوں نے بھرے جلسے میں بتا دیا کہ اُنھیں جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ فضل الرحمان کو ’’ڈیزل‘‘ مت کہو۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے طنزیہ انداز میں سوشل میڈیا پر سوال کیا ہے کہ اب جبکہ پی ٹی آئی کی گاڑی کو بریک لگ چکے ہیں، تو کیا مولانا فضل الرحمان سے اس گاڑی میں ایندھن بھروانے گئے تھے؟
اس سلسلے میں اسد قیصر سے جب صحافیوں نے سوال پوچھا کہ کیا وہ لوگ عمران خان کی رضامندی سے آئے ہیں؟ تو اُنھوں نے گول مول جواب دیا کہ ہم سب کی رضا مندی سے آئے ہیں۔
یہ وفد بظاہر مولانا فضل الرحمان کی خوش دامن کے انتقال پر اُن سے اظہارِ تعزیت کے لیے گیا تھا، مگر ساری دنیا جانتی ہے کہ مخالفین تو کجا عمران خان اپنوں کی وفات پر بھی اُن کے گھر جا کر تعزیت کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔
جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی، تو انتخابی مہم کو درمیان میں چھوڑ کر میاں نواز شریف فوراً راولپنڈی کے ہسپتال میں پہنچ گئے تھے۔ عمران خان نے اُن کے خاندان سے تعزیت کرنا تو دور کی بات، بے نظیر کی شہادت پر ایک ٹویٹ تک نہیں کیا تھا۔ اُن کا یہی رویہ محترمہ کلثوم نواز کی وفات پر رہا۔
جب محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، تو عمران خان اسلام آباد میں ہوتے ہوئے بھی جنازے میں شریک نہ ہوئے۔
اس طرح کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے درجنوں افراد کی شہادتوں پر ان کا رویہ سب کے سامنے ہے۔
اور تو اور ان کی پارٹی کے بنیادی رکن اور عمران خان کی خاطر اپنا شان دار مستقبل اور کیریئر ختم کر کے آنے والے نعیم الرحمان کے جنازے میں بھی اُنھوں نے شرکت کی، نہ تعزیت کے لیے اُن کے گھر ہی گئے، بلکہ اُس غم زدہ خاندان سے اظہارِ افسوس کے لیے اُنھیں کراچی سے وزیرِ اعظم ہاؤس اسلام آباد بلوا لیا۔
اب کیا یہ بات حلق سے نیچے اترنے والی ہے کہ ایسا شخص مولانا فضل الرحمان جیسے شدید مخالف کی خوش دامن کے انتقال پر تعزیت کے لیے اعلا سطحی وفد بھیجے گا؟
سیاست دان ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کا ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، مگر اِس ملاقات کو اِس لیے بھی اہمیت دی جا رہی ہے اور اِس پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانے یا ڈائیلاگ کرنے کے کبھی حق میں نہیں رہے۔ وہ ہمیشہ خود کو نیک اور پارسا ثابت کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو کہتے آئے ہیں اور اُن کے ساتھ مل بیٹھنے کے ہمیشہ انکاری رہے ہیں۔ پھر اب ایسی کیا مجبوری آن پہنچی ہے کہ پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے خود چل کر اُن کے پاس گیا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ وفد عمران خان کی رضامندی کے بغیر ہی اُن کو اعتماد میں لیے بنا اس ملاقات کو چلا گیا ہو؟
کیوں کہ بے شک عمران خان ’’یوٹرن‘‘ لینے کے ماسٹر ہیں، مگر اس کے باوجود وہ اوّل درجے کے ضدی اور انتہاپسند بھی ہیں۔ مخالفین کے ساتھ اتنی جلدی ہاتھ ملانے اور اس طرح سے اُن کے پاس چل کر جانے کی عمران خان سے اجازت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بھی وہ تو مولانا فضل الرحمان کو مولانا ماننے کو تیار نہیں، جب کہ وفد میں موجود اُن کے ساتھیوں نے مغرب کی نماز مولانا کی اقتدا میں ادا کر کے عمران خان کے اس فرمان کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔
یوں لگ رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے ساتھیوں نے ہواؤں کا رُخ بھانپ لیا ہے۔ میاں نوازشریف کی ’’ہر جگہ‘‘ پذیرائی اُنھیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا۔ عمران خان پر ڈھیر سارے کیس ہیں، جن میں اُنھیں لمبی سزا ہونے کے پورے امکانات موجود ہیں۔
عمران خان اپنے بعد پارٹی کی قیادت گھر سے باہر کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ اُن کی گرفتاری کے بعد شاہ محمود قریشی نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کی کوشش کی تھی اور یہ کہا تھا کہ خان صاحب کے بعد اَب پارٹی کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہے۔ مَیں اس جھنڈے کو تھام کر آگے بڑھوں گا، مگر جیل میں بیٹھے عمران خان کی طرف سے اُنھیں ’’شٹ اَپ کال‘‘ آگئی تھی۔ خان صاحب نے واضح طور پر اپنا جانشین بشریٰ بی بی کو مقرر کر دیا تھا۔
شنید ہے کہ آیندہ عام انتخابات سے پہلے بشریٰ بی بی کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا اور پی ٹی آئی کی قیادت عمران خان کی بہن علیمہ خان کے پاس چلی جائے گی۔ اسد قیصر اور علی محمد خان سمیت بہت سے قائدین کے لیے علیمہ خان کو لیڈر مان کر اُن کی قیادت میں چلنا ممکن نہیں۔
اب اس تناظر میں اگر دیکھا جائے، تو اس ملاقات کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اپنی سیاست بچانے کے لیے الگ گروپ تشکیل دے کر نئی صف بندی کر رہی ہے۔ چند دن تک معاملات مزید کھل کر سامنے آ جائیں گے۔
پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا کی لیڈرشپ اس اقدام سے شخصی فایدے تو اُٹھا لے گی، مگر اس سے پارٹی کو شدید نقصان ہوگا۔ کیوں کہ پرویز خٹک کی پارٹی سے علاحدگی پہلے ہی پارٹی کو کافی کم زور کرچکی ہے۔ محمود خان بھی پرواز کرچکے ہیں۔ ایسے میں باقی بڑے لیڈروں کا پارٹی ڈسپلن کو توڑ کر مولانا فضل الرحمان سے ملنا پی ٹی آئی کے لیے اچھا شگون نہیں۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔