قیامِ پاکستان سے آج تک پنجاب میں یہ اصول چلا آ رہا ہے کہ موسمِ گرما (16 اپریل تا 15 اکتوبر) میں سکولوں کے اوقاتِ کار ساڑھے پانچ گھنٹے ہوتے ہیں، جب کہ موسمِ سرما (16 اکتوبر تا 15 اپریل) میں یہ اوقاتِ کار یا سکولوں میں تدریسی سرگرمیوں کا دورانیہ چھے گھنٹے کر دیا جاتا ہے۔ یہ آدھے گھنٹے کا فرق کیوں ہوتا ہے؟ ہمیں تو اس کی لاجک سمجھ میں نہیں آئی۔ ویسے بھی یہ بات سائنسی اصول کے خلاف ہی جاتی ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
سائنس کا اُصول ہے کہ چیزیں گرم ہو کر پھیلتی ہیں جب کہ ٹھنڈی ہو کر سکڑتی ہیں۔ اسی اُصول کے تحت ریل کی پٹڑی کے دو ٹکڑوں کے کو جوڑتے وقت ان کے درمیان فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سردی کے موسم میں ریل کی پٹڑی کے جڑے ہوئے ٹکڑوں کے درمیان قریباً آدھ انچ کا فاصلہ ہوتا ہے، مگر گرمی کے موسم میں یہ دونوں ٹکڑے پھیل کر آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ گرمی میں بجلی کے کھمبوں کے درمیان لٹکتی تاریں سرد موسم میں کسی ہوئی نظر آئیں گی۔ اور تو اور سکولوں میں گرمی کی چھٹیاں اڑھائی ماہ اور سردی کی چھٹیاں صرف دس دن ہوتی ہیں۔
خیر، یہ تو مذاق کی بات تھی، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں ہمارے ہاں دن لمبے ہوتے ہیں۔ دن کا دورانیہ 14 گھنٹے تک ہوجاتا ہے، جب کہ موسمِ سرما میں یہ دورانیہ لگ بھگ دس گھنٹے ہوتا ہے۔ اب اُصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ دن کے دورانیے کے حساب سے موسمِ سرما میں سکولوں کے اوقاتِ کار کم اور موسمِ گرما میں زیادہ ہوں، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔
دراصل ہم لوگ لکیر کے فقیر ہیں۔ انگریز نے جو قانون یا اصول بنا دیا، آنکھیں بند کرکے ہم اُس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو گناہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے فائدے یا نقصان پر خود سے کبھی غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ شاید اِسی لیے انگریز نے کہا تھا کہ برِصغیر کے لوگوں کی دماغی صلاحیت انگریزوں کے مقابلے میں آدھی ہے۔ اِسی اُصول کے تحت اُنھوں نے اپنے ملک میں امتحانات میں پاسنگ مارکس 66 فی صد جب کہ برِصغیر میں ہمارے لیے 33 فی صد رکھے تھے۔ ہم لوگ انگریز سے آزادی کے 76 برس بعد بھی اُس کے کہے کو سچ ثابت کرنے کے لیے پاسنگ مارکس 33 فی صد پر انحصار کیے بیٹھے ہیں۔ عملی طور پر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہم آدھی دماغی صلاحیتوں والے لوگ ہیں۔
محکمۂ ریلوے میں بھی یہی نظام تھا کہ موسمِ گرما کے مقابلے میں موسمِ سرما میں ٹرینوں کا وقت ایک گھنٹا پہلے کر دیا جاتا تھا۔ لوگوں نے ریلوے حکام سے بار بار درخواست کی کہ اوقاتِ کار کی یہ تبدیلی نامناسب ہے۔ گرمیوں میں صبح پانچ بجے سورج طلوع ہونے کے ساتھ روانہ ہونے والی ٹرین جب سردی کے موسم میں صبح چار بجے روانہ ہوگی، تو اُس وقت سورج نکلنے میں سوا تین گھنٹے باقی ہوتے ہیں۔ یوں مسافروں کے لیے بہت دشواری ہوتی ہے، لیکن ریلوے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ ریلوے کی چند ٹرینیں پرائیویٹ ہوئیں اور اُنھیں جب سابقہ اُصول کو فالو کرنے پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا، تو اُنھوں نے اپنے اوقاتِ کار پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے پرانے اُصول کو خیرباد کَہ دیا۔
اِس وقت پنجاب بھر میں سرکاری سکولوں میں اوقاتِ کار صبح ساڑھے آٹھ بجے سے دن ڈھائی بجے تک ہیں…… یعنی کل دورانیہ چھے گھنٹے بنتا ہے۔ سکول ٹائم کے بعد آج کل بچے اکیڈمی پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ تین بجے اکیڈمی پہنچ کر جب پانچ چھے بجے وہ چھٹی کرتے ہیں، تو شام کا اندھیرا چھا چکا ہوتا ہے۔ آگے فوگ اور سموگ کا موسم بھی آ رہا ہے۔ اُس موسم میں چار بجے سے اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ ایسے میں دور دراز کے دیہات سے سکول پہنچنے والے طلبہ خصوصاً طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روشنی کم یا اندھیرا ہونے کی وجہ سے طلبہ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شام کے وقت سردی بڑھنے کی وجہ سے سفر کر کے بیمار بھی ہو جاتے ہیں۔ بچے بھوک اور پڑھائی کی وجہ سے بہت زیادہ تھک چکے ہوتے ہیں۔ خصوصاً پرائمری کلاسوں کے بچے تو باقاعدہ نیند کے خمار میں ہوتے ہیں۔ اِن بچوں کو آرام کی سخت ضرورت ہوتی ہے، مگر آرام نہیں کرسکتے کہ اُنھیں ابھی سکول سے ملا ہوا ہوم ورک بھی کرنا ہوتا ہے۔ بہت سے بچوں نے کسی ٹیسٹ یا امتحان کی تیاری کرنا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بالکل ہی نڈھال ہوجاتے ہیں۔ وہ کماحقہ پوری توجہ سے پڑھ نہیں پاتے۔
اگر آپ کسی مزدور کو دیکھیں، تو وہ صبح سے شام تک 9، 10 گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی اتنا نہیں تھکتا، جتنا پانچ چھے گھنٹے کے تدریسی عمل کے بعد بچے اور اساتذہ تھک جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسمانی مشقت کی نسبت ذہنی مشقت زیادہ تھکا دینے والا کام ہے۔ ہم نے سکولوں میں دیکھا ہے کہ موسمِ گرما میں پانچ گھنٹے تعلیمی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ کل ساڑھے پانچ گھنٹے میں سے آدھا گھنٹا تدریسی کام نہیں ہوتا۔ دس منٹ مارننگ اسمبلی اور بیس منٹ بریک میں چلے جاتے ہیں۔ موسمِ سرما میں بھی تدریسی سرگرمیاں پانچ گھنٹے ہی ہوتی ہیں۔ کل چھے گھنٹوں میں سے ایک گھنٹا تدریسی کام نہیں ہوتا۔ دس منٹ مارننگ اسمبلی، آدھا گھنٹا بریک اور بیس منٹ ظہر کی نماز کا وقفہ ہوتا ہے۔
اگر موسمِ سرما میں وقت کو بہتر طور سے مینج کر لیا جائے، تو طلبہ کے لیے آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ سکول کا آغاز صبح آٹھ بجے کیا جائے اور دوپہر ایک بجے چھٹی کر دی جائے۔ درمیان میں 10، 15 منٹ کی بریک دے دی جائے۔ ظہر کی نماز بچے اور اساتذہ گھر جا کر ادا کرسکتے ہیں۔ ڈھائی بجے کی بجائے ایک بجے چھٹی کی صورت میں بچ جانے والے ڈیڑھ گھنٹے میں طلبہ اکیڈمی بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وقت پر گھر بھی پہنچ سکتے ہیں، اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر ہوم ورک اور ٹیسٹ یا امتحان کی تیاری بھی کرسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔