انتخاب: افتخار شفیع
دریائے نیل کے قریب ایک غیر آباد علاقہ میں ایک پاک باز انسان کی انوکھی دنیا سارے جہاں سے الگ تھلگ تھی۔ اُس مقدس اور پاک باز انسان کی زندگی کا بیش تر حصہ عبادت اور ریاضت میں گزرتا تھا۔ وہ ایک ایسا پاک باز انسان تھا کہ لوگ اُسے انسان کے لباس میں فرشتہ خیال کرتے تھے۔
وہ اسی دنیا میں رہتا تھا، مگر دنیا کی دل آویزیوں سے بے خبر ستاروں کی چمک اور موسموں کی دل فریبی اور حسن کی کشش کا اُس پر جادو نہ چلتا تھا۔ سرود و نغمہ بھی اُسے اُس خواب سے بیدار نہ کرسکتا تھا۔ جس کی تعبیر کا مدتوں سے منتظر تھا۔ غرض یہ کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی وہ دنیا سے جدا تھا۔ کیوں کہ دنیا کی کسی چیز سے بھی اُسے لگاو نہ تھا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہے۔ وہ انسان کیا تھا بس تقدس و پرہیزگاری کی ایک ایسی تصویر تھی، جو سال ہا سال سے عبادت خانہ میں سجی ہوئی ہو۔ وہ کسی سے بولتا نہ تھا، نہ بات ہی کرتا تھا۔ بس عبادت و ریاضت اس کی زندگی کا اعلا مقصد تھا۔
زمانہ گزرتا گیا اور زمانہ کے ساتھ ساتھ مقدس اور پاک باز انسان کی زندگی بھی ختم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ایک روز اُس کی روح نے اُس کے جسم کو چھوڑ دیا۔ اُس کی روح دنیا سے چلی گئی…… لیکن دنیا والے اُسے اب بھی عزت سے یاد کرتے تھے۔
اُسی بستی میں ایک دنیا دار بھی رہتا تھا، جس کی تمام جد و جہد دنیا اور دنیا والوں کے لیے وقف تھی۔ وہ عبادت سے نا آشنا تھا۔ کیوں کہ دنیا کے دھندوں میں اُسے عبادت کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا…… یا یوں سمجھیے کہ وہ عبادت کے لیے وقت نکالنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایک عیال دار انسان تھا۔ شب و روز اپنے بچوں کی پرورش کے لیے محنت کرتا۔ گویا اُسے محنت ہی کے لیے بنایا گیا تھا۔ جب وہ اپنے معصوم بچوں میں بیٹھتا، تو سارے دکھ درد بھول جاتا۔ اُسے اپنے بچوں ہی کی فکر نہ تھی۔ وہ بستی کے دوسرے رہنے والوں سے بھی غافل نہ تھا۔ اگر اُسے یہ معلوم ہوجاتا کہ بستی کا کوئی شخص بھوکا ہے، تو وہ اُس وقت تک خود نہ کھاتا تھا، جب تک کہ بھوکے کا پیٹ نہ بھر دے۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا میں کوئی بھوکا ننگا نہ رہے۔
اس کے سینہ میں ایک درد بھرا دل تھا۔ وہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جب وہ کسی دوسرے شخص کو تکلیف میں دیکھتا، تو اُسے یہ محسوس ہوتا کہ گویا وہ خود ہی تکلیف میں ہے۔ اُس کی ساری عمر دنیا کے جھگڑوں میں اور دنیا والوں کی خدمت میں بسر ہوگئی۔ یہاں تک کہ اُس کی موت کا وقت قریب آگیا اور وہ دنیا سے چلا گیا۔ وہ دنیا سے جاچکا تھا…… لیکن لوگ اُس کے لیے ایسے بے چین تھے، جیسے اُن کا کوئی محسن اُٹھ گیا ہو۔
مقدس بزرگ اور دنیا دار انسان کی روحیں دربارِ الٰہی میں پیش ہوئیں۔ فرشتوں نے مودبانہ انداز میں سرجھکائے ہوئے کہا: ’’خداوند! یہ بزرگ تیرا سچا بندہ ہے اور دنیا دار دنیا کا غلام ہے۔‘‘ یہ کَہ کر فرشتوں نے اعمال نامے سامنے رکھ دیے اور مودبانہ کھڑے ہوگئے۔ حکم ہوا کہ یہ ہمارا عبادت گزار بندہ بلاشبہ سچا بندہ ہے۔ اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے اور اسے بہشت میں جگہ دے دی جائے۔ کیوں کہ یہ ہماری بندگی کرتا تھا…… لیکن ہمارا سچا بندہ یہ دنیا دار انسان ہے۔ جو ہماری مخلوق کو فائدہ پہنچانے میں ایسا مصروف تھا کہ اُس نے عبادت کو بھی بھلا دیا۔ اگر عبادت کرتا، تو بہتر تھا…… لیکن اُس نے عبادت سے بھی بہتر کام کیا ہے…… یعنی مخلوقِ خدا کی خدمت بہترین عبادت ہے۔ لہٰذا اُسے جنت میں بلند سے بلند درجہ دیا جائے۔ فرشتے حیران تھے اور دنیا دار انسان سب سے زیادہ حیران تھا۔ کیوں کہ اُسے اُس اعزاز کا خیال تک بھی نہیں تھا۔
(نوٹ:۔ ایک مصری شاہ کار کا ترجمہ، مصنف ’’نامعلوم‘‘، مترجم ’’مجید امجد‘‘، ماخذ ’’کلیاتِ نثر مجید امجد‘‘، مرتبہ ’’ڈاکٹر افتخار شفیع‘‘)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔