مَیں بچپن کی بعض باتیں صرف اس لیے دُہراتا ہوں کہ شاید کوئی اُن وقتوں کا ابھی تک زندہ ہو اور اُس سے رابطہ کی کوئی صورت نکل آئے۔
سیدو شریف کے موجودہ رکشوں کے سٹینڈ سے جو گلی سیدو بابا کی مسجد کی طرف نکلتی ہے۔ اُس کے دونوں طرف اُن دنوں مکانات تھے۔ جنوبی طرف کو مکانات کی تعداد بہ نسبت شمالی طرف کے زیادہ تھی۔ کیوں کہ اُس طرف صرف مہتمم صاحب سلطان محمد کی رہایش گاہ تھی…… جس کے آخر میں دو کمروں اور ایک برآمدے اور بغیر چار دیواری کے ایک کھلے صحن پر مشتمل عمارت تھی۔ یہ غلام حیا صاحب کا دفتر تھا، جو اُس وقت بادشاہ صاحب کی ذاتی جائیداد کے منتظم تھے۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بڑے صاحب زادے جناب عقل مند خان نے یہ منصب سنبھالا تھا۔
اُسی عمارت کے برآمدے میں ایک گھٹے ہوئے بھاری بھر کم جسم کا شخص درزی کا کام کرتا تھا۔ اُس کا نام ثانی گل تھا۔ بچپن میں ہم کو جب بھی نئے کپڑے بنانا ہوتے، تو اُن کے پاس ہمیں ناپ کے لیے لے جانا پڑتا تھا……اور پھر ہم دن میں دو دفعہ افسر آباد سے اتنا لمبا راستہ طے کرکے اُس سے کپڑوں کا پتا کرنے جاتے اور روز اُس کی جھڑکیاں سن کر واپس آجاتے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
اُس کا ایک بیٹا جو میرے بڑے بھائی کا ہم عمر تھا، شگئ سکول میں ہمارا ہم جماعت تھا۔ اُس کا نام عظیم اللہ تھا۔ اُس کے چہرے پر چیچک کے داغ پھیلے ہوئے تھے۔ بعد میں اُس نے بھی ’’خیاطی‘‘ (درزی) کا پیشہ اپنالیا تھا۔
اب تو شاید ہی وہ زندہ ہو۔ اُس کا چھوٹا بھائی بھی درزی کا کام کرتا تھا اور ملازم بھی تھا کہیں پر۔
ایک اور کلاس میٹ میرا شگئ کے دنوں میں محمد شمعون تھا۔ اُس کا والد کشمیر کی 1948ء والی لڑائی میں ریاستی فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا تھا۔ والیِ سوات نے اُس کے والد کو بہ طورِ سپاہی ملنے والی برات (جنس کی شکل میں فصلانہ ادائی) اس کی ملازمت اور تعلیم کی تکمیل تک جاری رکھی۔
وہ مجھ سے عمر میں بہت بڑا تھا، بلکہ میرے بڑے بھائی فضل وہاب سے بھی چند برس بڑا ہوتا ہوگا۔
ایک دن کلاس کے لڑکے بریک پر تھے۔ مَیں چوں کہ بہت ہی چھوٹا اور کم زور لڑکا تھا، تو کمرے میں ہی بیٹھا رہا۔ اتنے میں شمعون کلاس میں آگیا اور چاک اُٹھا کر بورڈ پر کچھ لکھنے لگا۔ مَیں نے ویسے ہی کہا: ’’لکھو، عبدالطیف……!‘‘
مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ اُس کے شہید والد کا نام تھا۔ وہ مجھے مارنے کے لیے میری طرف بڑھنے لگا، تو خوف کے مارے میری گھگی بندھ گئی اور ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئی۔
اتنے میں سکول کی گھنٹی بجنے لگی اور لڑکے بریک سے واپس کلاس روم میں آگئے۔ مَیں نے سکھ کا سانس لیا۔
دراصل وہ ’’تکلیف‘‘ لکھنے والے تھے۔
محمد شمعون بعد میں سیدو ہسپتال میں کمپاؤنڈر اور لیبارٹری ٹیکنیشن بن گئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔