دیوان سنگھ مفتون کی ایک پرانی تحریر

Deewan Singh Maftoon

انتخاب: حنظلۃ الخلیق 
انگریزی کے ایک مصنف نے لکھا ہے: ’’مجھے اُن گناہ گاروں کے ساتھ ہم دردی ہے، جو بے نقاب ہوگئے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں سب ہی گناہ کرتے ہیں، مگر گناہ گار وہی قرار دیے جاتے ہیں، جن کے گناہوں کا لوگوں کو علم ہو جائے اور وہ لوگ گناہ کرتے ہوئے بھی معصوم و بے گناہ رہتے ہیں، جو بے نقاب نہیں ہوئے۔ گناہ اور گناہ گاروں کی اس پوزیشن میں ہندی کے فاضل اجل شاعر بہاری اپنے ایک دوہے میں فرماتے ہیں:
’’شباب اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو دنیا میں کوئی روکنے والا پیدا نہ ہوا۔‘‘
چناں چہ دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ایسا ہوگا (بہ شرط یہ کہ صحت کے اعتبار سے مردہ اور دماغی اعتبار سے بے حس نہ ہو) جس نے شباب کے زمانہ میں ٹھوکریں نہ کھائی ہوں۔ مہاتما گاندھی بھی اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اپنے شباب کے زمانہ کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔
شباب کے زمانہ کی غلطیوں یا مجبوریوں کے متعلق میرے مشاہدات بہت وسیع ہیں اور میں سچ کہتا ہوں کہ جب کبھی کسی شخص کے شباب و محبت کے واقعات محبت کی غلطیاں، مجبوریاں، رسوائی، نتائج اور محبت کی سزا دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں اس کے لیے بے حد ہم دردی پیدا ہو جاتی ہے۔
مَیں ’’نابھہ‘‘ میں تھا اور میرے پاس ایک بہت اچھی نسل کی سیاہ رنگ کی خوب صورت کاکر سپینسل کُتیا تھی جو مَیں نے شملہ کے ایک انگریز سے خریدی تھی۔ یہ کُتیا جب جوان ہوئی اور اُس کے بہار کے دن تھے، تو محلہ کے کتوں نے اُس کا پیچھا کیا۔ مَیں اُس کو بہت محفوظ رکھتا اور دن رات دروازہ بند رکھتا کہ کوئی کتا نہ آجائے اور میں نہ چاہتا تھا کہ اتنی اچھی نسل کی کُتیا سے کوئی ’’کم ذات‘‘ کتا تعلق پیدا کرے اور اس کے بچے بھی اینگلو انڈین قسم کے ہوں۔
دروازوں کے بند ہونے کی صورت میں بھی ایک کتا قریب کے مکان کی چھت پر سے اندر آگیا۔ اُس کو مکان کے اندر دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔ مَیں نے اُس کتے کو پکڑلیا، اور اُس کے گلے میں رَسّی کا پھندا ڈال کر صحن میں لٹکا دیا، تاکہ یہ عشق بازی کو بھول جائے اور پھر دوبارہ مکان میں آنے کی جرات نہ کرے۔ رَسّی کے ساتھ جب مَیں نے اُسے لٹکایا، تو وہ دیوار کے ساتھ تڑپنے لگا۔ اُس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے رحم آگیا۔ مَیں نے اُس کی رسی کھول دی اور مکان سے باہر نکال دیا۔ اُس کتے کو صحن میں لٹکنے سے یقینا بہت اذیت پہنچی…… اور میرا یقین تھا کہ اَب یہ عشق بازی کو بھول جائے گا، مگر اُس روز تو اُس نے میرے مکان کا رُخ نہ کیا۔ اگلے روز مَیں نے دیکھا کہ وہ پھر پڑوس کی چھت پر سے اندر آگیا ہے۔ اُس کے مکان میں داخل ہونے پر مَیں نے اُسے بہت پیٹا اور مکان سے نکال دیا…… مگر اُس کے اَگلے روز پھر دیکھتا ہوں کہ چھت سے کُود کر اندر آگیا ہے اور اُس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت رحم آیا اور مَیں نے محسوس کیا کہ انسان ہی نہیں جانور بھی عشق کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہیں۔ چناں چہ مَیں نے پھر اُسے کچھ نہ کہا۔ گویا کہ انٹر کاسٹ میرج کی اجازت دے دی گئی۔
یہ کیفیت بے حد دل چسپ ہے کہ ہر شخص شباب کے زمانہ میں غلطیاں کرتا ہے اور باوجود تنبیہ کیے جانے اور بار بار ٹھوکریں کھانے کے بھی باز نہیں آیا…… مگر یہی شخص جب عمر میں زیادہ ہوجائے، تو نوجوانوں کو عشق و محبت سے دور رہنے کی نصیحتیں شروع کر دیتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ نہ تو اُس نے جوانی میں کسی کی نصیحت سنی اور نہ یہ سنیں گے۔ جن کے سامنے وہ نصائح کے دریا بہا رہا ہے۔ کیوں کہ شباب اور عشق کے ہاتھوں وہ خود مجبور تھا اور جن کونصیحتیں کر رہا ہے، وہ بھی مجبور ہیں۔
میری رائے میں جو لوگ اپنی اولاد یا اپنے عزیزوں کو صرف نصائح کے ذریعہ عشق و محبت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کی سعی قطعی لاحاصل ثابت ہوتی ہے اور محبت نصیحت کی محتاج نہیں۔
ہاں……! اگر یہ ممکن ہو کہ جس سے محبت کی جاتی ہے، اُس کے متعلق محبت کرنے والے کو غیر وفا شعاری کا یقین دلایا جاسکے، تو محبت کرنے والے کے دل میں نفرت پیدا ہوسکتی ہے۔
دیوان سنگھ مفتون۔
ایڈیٹر ہفت روزہ ریاست اخبار۔
دہلی 1960ء۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے