سسٹم کی تبدیلی وقت کا تقاضا ہے!

Blogger Rafi Sehrai

خیر سے عمران خان کے معتمدِ خاص فرخ حبیب بھی پریس کانفرنس کرکے ’’نہائے دھوئے‘‘ گھوڑے بن گئے ہیں۔
اُن سے قبل عمران خان کی ناک کے دو بال عثمان ڈار اور صداقت علی عباسی بھی یہ سعادت حاصل کر چکے ہیں۔
سنا ہے ’’اصلی تے نسلی‘‘ ہونے کے دعوے دار شیخ رشید بھی خود کو ’’نقلی‘‘ ثابت کرنے والے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
فرخ حبیب تو مردوں کے ’’فردوس عاشق اعوان‘‘ ثابت ہوئے ہیں۔ جس طرح فردوس آپا ہر نئی پارٹی کو جوائن کرنے کے بعد اپنی سابقہ سیاسی پارٹی کے لیڈران کے بخیے ادھیڑتی آئی ہیں، اُسی طرح فرخ حبیب نے عمران خان پر ایسی چارج شیٹ عائد کر دی ہے کہ اُن کے وعدہ معاف گواہ بننے میں کوئی کثر نہیں رہ گئی۔
عمران خان یقینا مردم شناس نہیں، جو ایسے برائیلر ٹائپ لوگوں کو ساتھ لے کر ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کو نکلے تھے، جو مخالف ہوا کا ایک تھپیڑا بھی برداشت نہ کرسکے۔
عمران خان پر جاں نثار کرنے والے اور اُنھیں ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دینے والے اپنی جانیں بچا کر ’’گرین لائن‘‘ پر جا کھڑے ہوئے۔ کل اُنھیں عمران خان نجات دہندہ نظر آتا تھا، آج وہی عمران خان اُن کی نظر میں سب سے بڑا قومی مجرم ہے۔
شاید پے در پے بے وفائی کے صدمے عمران خان کواس لیے سہنے پڑ رہے ہیں کہ اُس نے خود بھی کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ اپنے ہر محسن کے ساتھ اُس نے بے وفائی کرکے اُسے ٹشو پیپر کی طرح پھینکا ہے۔ یہاں تک کہ 9 مئی کو اُس کی خاطر نکلنے والے ورکرز جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آئے، تو اُس نے اُن سے بھی لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔
سیاست کبھی بہت صاف ستھرا کھیل ہوا کرتی تھی…… اور یہ کھیل کھیلنے والے کھلاڑی بڑے بردبار، متین، سمجھ دار، حوصلہ مند، سنجیدہ اور نظم و ضبط کے قائل ہوتے تھے۔ سیاست دان اپنے وقار کا ہمیشہ لحاظ اور پاس رکھا کرتے تھے۔ اُن کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اُن کا وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ واقعی وہ لوگ سیاست کو عبادت کا درجہ دیا کرتے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان، عبدالولی خان، محمد خان جونیجو، میاں محمد یاسین وٹو، محمد حنیف رامے اور ملک معراج خالد سمیت درجنوں ایسے نام گنوائے جا سکتے ہیں، جو سیاست کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
پھر زمانے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی تبدیلی آگئی۔ سیاست تیز رفتار بھی ہوگئی اور محض شرفا کا کھیل بھی نہ رہی۔ پیسے نے سیاست کو تباہ کر دیا۔
جس طرح مختلف محکموں میں رشوت دے کر ملازمت حاصل کی جاتی ہے اور پھر رشوت لے لے کر اپنی آمدنی کئی گنا بڑھائی جاتی ہے، یہی چلن سیاست میں بھی آگیا۔ سیاست دانوں نے ’’پارٹی ڈونیشن‘‘ اور ’’انتخابی اخراجات‘‘ کی مد میں بے تحاشا پیسا خرچ کرنا شروع کر دیا۔ جیت کی صورت میں خرچ کیا گیا پیسا 20، 25 گنا منافع کے ساتھ حاصل کیا جانے لگا۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے منظور کروائے گئے فنڈز کا 10 فی صد کمیشن ممبر اسمبلی کے لیے حلال قرار دے دیا گیا۔ گویا 10 کروڑ کے منصوبے میں سے ایک کروڑ اپنی جیب میں ڈالو۔ نہ کوئی پوچھ گچھ، نہ کسی انکوائری کا ڈر…… بالکل حق حلال کی جائز کمائی آپ کی جیب میں۔
کچھ تیز اور کمائی ہی کی نیت سے سیاست میں آنے والے حضرات اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری کروائے گئے فنڈ کے ٹھیکے بھی خود ہی لینے لگے۔ اس کام کے لیے اُنھوں نے فرنٹ مین رکھ لیے اور یوں 10 کروڑ میں سے کم از کم 5 کروڑ کھرا کیا جانے لگا۔ وزرا اپنے محکموں میں لوٹ مار مچانے لگے۔ وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم نے بہتی گنگا میں سب سے زیادہ ہاتھ دھونے شروع کردیے۔
سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والے خال خال رہ گئے اور کاروباری نیت سے سیاست کرنے والے چھاگئے، جنھوں نے سیاست کو غلاظت میں بدل کر رکھ دیا۔ پہلے سیاست کو خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ انتقام لینے کا ذریعہ بن گئی۔ سیاسی اختلافات ذاتی مخالفت میں بدلتے گئے۔ سیاست کھیل کے سٹیٹس سے نکل کر جنگ کے درجے میں داخل ہوگئی۔ مقابلے میں الیکشن لڑنے کے ’’جرم‘‘ میں سیاست دان قتل بھی ہونے لگے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی اُنھیں دھکیلا گیا۔ سیاست میں جیت اور جیت کے بعد اقتدار ہی منزل کا حصول ہوتا ہے، مگر اس منزل کے حصول کے لیے جائز ذرائع کا حصول ہی کافی نہ سمجھا گیا۔ ہر طرح کی دھونس، دھاندلی اور ہر ناجائز حربہ استعمال کرنا اس کھیل میں جائز قرار پایا۔
ہم اقتدار کی جنگ جیتنے کی خاطر اور دوسرے کے مینڈیٹ کو نہ ماننے کی ضد میں اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے، لیکن ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کی روایت بڑھتی ہی چلی گئی۔
قارئین! پہلے یہ ہوتا تھا کہ انتخابات کے موقع پر ہر اُمیدوار اپنی اچھائیاں عوام کو بتایا کرتا تھا۔ اپنی شرافت، وطن دوستی اور عوامی بھلائی کے کاموں کے ثبوت اپنے ووٹرز کے سامنے رکھتا تھا۔ مخالف امیدوار سے اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتا تھا کہ جسے چاہے منتخب کریں۔
مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اپنی اچھائی اکثر امیدوار کیش نہیں کراتے، شاید اُن کے پاس بتانے کو کچھ ہوتا ہی نہیں۔ آج کل اپنے مخالف کی برائیاں اور کم زوریاں کیش کروائی جاتی ہیں۔ جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں اور ان الزامات کو اس تواتر سے دُہرایا جاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگیں۔ میڈیا اور پراپیگنڈے کا دور ہے۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔ لہٰذا اس قدر تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سننے والے کو سچ لگنے لگتا ہے۔
جنابِ ظفر اقبال نے کیا خوب صورت شعر لکھا ہے:
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
ہمارے سیاست دان بھی صاحبِ کردار ہونے کے اس فارمولے پر 100 فی صد پورا اُترتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو بدترین ثابت کرنے کے لیے ہر الزام لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عوام بھی قائل ہوجاتے ہیں۔ اب تو ویڈیو اور آڈیو ریلیز کرنے کا رواج بھی چل نکلا ہے۔ مخالفین کی کردار کشی کی یہ گھناونی رسم فروغ پا رہی ہے۔
کھیل صرف مفادات کا ہے۔ بے وقوف عوام کو اپنی جنگ کا ایندھن بنا کر بے دردی سے اس میں جھونکا جا رہا ہے۔ عوام بھی جان بوجھ کر بے وقوف بنے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی نے اپنے لیڈروں سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ راہ زن اب راہ بر کیسے ہوگئے، لٹیرے اب بھائی کیوں بن گئے ہیں؟
سیاست میں چھوٹے چھوٹے گروپ ’’پاسک دی وٹّی‘‘ بن کر بلیک میلنگ اور لوٹ مار میں اپنے جثے سے بھی زیادہ حصہ لے کر پارلیمانی سیاست کو داغ دار کر رہے ہیں۔
پہلے کسی پارٹی کو چھوڑنے والے بڑی سادگی سے کَہ دیا کرتے تھے کہ
آپ اچھے، رقیب بھی اچھے
مَیں برا تھا مری گزر نہ ہوئی
مگر اب نیا ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ عمران خان کے ہر فیصلے میں، ہر فعل میں اُس کا ساتھ دینے والے برے حالات میں اُنھیں تنہا ہی نہیں چھوڑ رہے…… بلکہ اُن پر الزامات کی بارش بھی کر رہے ہیں۔ واقعی سیاست اب عبادت نہیں رہی، غلاظت بن گئی ہے۔
یہ پارلیمانی سسٹم فیل ہو کر بدبودار ہوچکا ہے۔ سسٹم کی تبدیلی وقت کا تقاضا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے