بندہ، بندگی سے پہچانا جاتا ہے۔ زندگی کا مقصد کھانا پینا اور مر جانا نہیں۔ جس اللہ نے پیدا کیا ہے، اُس کی عبادت بھی ہم پر فرض کی گئی ہے۔ افسوس کہ ہم اسے معبود تو مانتے ہیں، مگر اس کی عبادت سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ہمارے ہاں ایک عجیب ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ ہمیں یہ تعلیم دی جا رہی ہے: ’’حقوق اللہ تو اللہ تعالا معاف کر دے گا، مگر حقوق العباد اللہ تعالا معاف نہیں کرے گا، حقوق العباد صرف وہی بندے معاف کریں گے جن کے حقوق غصب یا سلب کیے ہوں گے۔‘‘
بات تو سچ ہے مگر کیا یہ پرچار کرکے ہم حقوق اللہ کی اہمیت کو کم نہیں کر رہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان فرق قائم کرنے والا عمل نماز ہے، مگر ہم اس اہم عبادت سے اجتناب یا پہلو تہی کی یہ کَہ کر ترغیب دیتے ہیں کہ حقوق اللہ تو معاف ہو جائیں گے، حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ ہمارا یہ رویہ سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے۔ اگر حقوق العباد ہی کو اہمیت دینی ہے، تو پھر یہ کام تو غیر مسلم بھی انجام دے رہے ہیں اور شاید ہم سے بہتر انجام دے رہے ہیں۔ صرف حقوق العباد کی اہمیت کے پروپیگنڈے کے پیچھے وہی لوگ ہیں جو فخریہ اظہار کرتے ہیں کہ ان کا مذہب انسانیت ہے۔ ہمارا دین اسلام ہے، جو ایک جامع اور اکمل و کامل دین ہے۔ یہ دین عبادات و اخلاقیات کا مجموعہ ہے اور انسانیت، اخلاقیات کا ایک پہلو ہے…… یعنی ہمارے نادان دوست سمندر کو چھوڑ کر قطرے کو اہمیت دینے کی بات کرتے ہیں۔
یاد رکھیں! اپنے تشخص کی حفاظت پہلا کام ہے۔ پہلے ہم مسلمان بنیں، باقی سب کچھ بعد میں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ نے بن مانگے ہی ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ اپنے جسم پر ہی نظر دوڑا لیں۔ آنکھیں، دل،ہاتھ، پاؤں، جگر، گردے، حواسِ خمسہ سمیت کتنا کچھ مفت میں مل گیا ہے۔ نابینا سے آنکھوں کی قدر پوچھیں، جسم کا کوئی بھی عضو بے کار ہو جائے، تو ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ دنیاوی نعمتیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں، ان کا کوئی شمار ہی نہیں، مگر…… کیا ہم نے کبھی ان نعمتوں کے بدلے میں اللہ تعالا کا شکر ادا کیا ہے؟ کیا اس مالک کے سامنے ان نعمتوں کی عطائی پر سربسجود ہوئے ہیں؟ ایسا بہت کم ہوا ہے۔ من حیث القوم ہم اللہ تعالا کے شکر گزار بندے بننے کی بجائے ہر وقت اللہ کریم سے شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔ ہم اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ دوسروں کو جو ہم سے زیادہ نعمتیں ملی ہیں، وہ ہمیں کیوں نہیں ملیں۔ ہم نے کبھی اُن کی طرف نہیں دیکھا، جنھیں ہم سے کم عطا کیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زیادہ کی ہوس نے ہمیں ناشکرا بنا دیا ہے۔ ہم نے خدا کو یاد کرنا چھوڑ دیا ہے۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ناشکرے لوگ ہمیشہ صرف مصیبت میں ہی خدا کو یاد کرتے ہیں، جب بات ہمارے بس سے باہر ہو جائے، تو ہمیں خدا یاد آتا ہے۔ سکون، خوشی اور خوش حالی میں ہم یادِ خدا سے غافل رہتے ہیں۔
ایک انجینئر بلڈنگ کی دسویں منزل پر کام کر رہا تھا، ایک مزدود بلڈنگ کے نیچے اپنے کام میں مصروف تھا۔ انجینئر کو مزدور سے کام تھا۔ بہت دفعہ آواز دی، لیکن اس نے نہیں سنی۔
انجینئر نے جیب سے 10 ڈالر کا نوٹ نکالا اور نیچے پھینکا، تاکہ مزدور اوپر کی طرف متوجہ ہو جائے…… لیکن مزدور نے نوٹ اُٹھا کر جیب میں ڈالا اور اوپر دیکھے بغیر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
دوسری دفعہ انجینئر نے 50 ڈالر کا نوٹ نکالا اور نیچے پھینکا کہ شاید اَب کی بار مزدور اُوپر کی طرف متوجہ ہو جائے۔ مزدور نے پھر سے اوپر دیکھے بغیر نوٹ جیب میں ڈال دیا۔
اب تیسری دفعہ انجینئر نے ایک چھوٹی سی کنکری اُٹھائی اور اُسے نیچے پھینک دیا۔ کنکر کا مزدور کے سر پر لگنا تھا۔ اُس نے فوراً اوپر کی طرف نگاہ کی۔ انجینئر نے اُسے اپنے کام کے بارے بتایا۔
یہ در حقیقت ہماری زندگی کی کہانی ہے۔ ہمارا مہربان اللہ ہمیشہ ہم پر نعمتوں کی بارش کرتا ہے کہ شاید ہم سر اُٹھا کر اُس کا شکریہ ادا کریں، اُس کی باتیں سنیں، لیکن ہم اس طرح اس کی بات نہیں سنتے…… لیکن جوں ہی کوئی چھوٹی سی مشکل، پریشانی یا مصیبت ہماری زندگی میں آتی ہے۔ ہم فوراً اس ذات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ہمیں صرف مشکلات میں اللہ یاد آتا ہے۔
پس ہمیں چاہیے کہ ہر وقت، جب بھی پروردگار کی طرف سے کوئی نعمت ہم تک پہنچے۔ فوراً اس کا شکریہ ادا کریں۔ شکریہ ادا کرنے اور اللہ کی بات سننے کے لیے سر پر کنکری لگنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔