سفید چھڑی کا دن منانے کا مقصد نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات سے معاشرے کو آگاہ کرنا اور یہ باورکرانا ہے کہ معذور افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ ایک ذمے دار شہری ثابت ہوسکتے ہیں۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
سفید چھڑی تو نابینا افراد کو چلنے پھرنے میں تحفظ فراہم کرتی ہے، تاہم سفرِ زیست کے لیے تعلیم، روزگار اور صحت توجہ طلب مسائل ہیں۔ پاکستان بھر کی بلائنڈ ایسوسی ایشنز بھی اس دن کو پُرجوش انداز میں منانے کے لیے مختلف شہروں میں رنگا رنگ پروگرام منعقد کرتی ہیں، جن کا مقصد نابینا افراد کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مکاتبِ فکرکو نابینا افراد کے مسائل سے آگاہ کرنا اور نابینا افراد میں موجود صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا ہوتا ہے، تاکہ نابینا افراد کے مسائل حل ہوسکیں۔ ان کو آسانیاں میسر آسکیں اوریہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار احسن طور پر ادا کرسکیں۔
اس حوالے سے اس دن منعقد ہونے والے پروگرام نابینا افراد کے لیے مسرت کا باعث ہوتے ہیں۔ 15 اکتوبر 1999ء تک یہ دن سرکاری اور نجی سطح پربھر پور طریقے سے منایا جاتا رہا، لیکن پھر دنیا کے سرمایہ دار اداروں نے اس دن پر شب خون مارا اور اس دن کو ’’گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے‘‘ یعنی ہاتھ دھونے کا دن مقرر کردیا، جس کا مقصد شعور کی بیداری کے نام پر اپنی مصنوعات کی تشہیر اور خود کو سماجی حیثیت میں سامنے لانا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’یومِ سفید چھڑی‘‘ پر کمرشل پرست میڈیا ’’گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے‘‘ کے اشتہارات کی چکاچوند میں ایسا غرق ہوا کہ نابینا افراد کو اپنے دن پر صرف ڈھائی منٹ کی کوریج ملتی۔ کیوں کہ نابینا اداروں کے پاس تشہیر کے لیے پیسا نہیں، اس لیے اُن کے مسائل آگے پہنچانے والا کوئی نہیں۔ اِن حالات میں میڈیا کواپنی قومی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے نہ صرف نابینا افراد کے مسائل کو اُجاگر کرنا چاہیے، بلکہ نابینا افراد کی کارکردگی بھی سامنے لانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دار کمپنیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اُنھوں نے خصوصی افراد کے ایک عظیم مقصد کے لیے منائے جانے والے دن کے ساتھ جو زیادتی کی ہے، اُس کا اِزالہ کریں…… تاکہ معاشرے کا یہ طبقہ جو بظاہر ’’فیوز بلب‘‘ کی مانند دکھائی دیتا ہے، اقوام عالم کی توجہ پاسکے…… اور نابینا افراد معاشرے کے دیگر افراد میں بصیرت کا نور پھیلانے کا ذریعہ بن سکیں۔ بطورِ شہری ہماری ذمے داری ہے کہ ہمیں جہاں کہیں سفید چھڑی پکڑے نابینا افراد نظر آئیں، ہم اُن کو راستہ دیں اور اُن کی رہنمائی کریں…… اور ٹریفک کی مڈبھیڑ میں روڈ کراس کرنے میں ان کی مدد کریں۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 22 کروڑ افراد بروقت تشخیص نہ ہونے کے باعث نابینا پن کی جانب بڑھ رہے ہیں…… جب کہ صرف پاکستان میں 66 فی صد افراد موتیا، 6 فی صد کالے پانی اور 12 فی صد بینائی کی کم زوری کا شکار ہیں۔ یہ بیماریاں بتدریج نابینا پن کی طرف لے جاتی ہیں۔
اس وقت جنوبی ایشیا میں 1 کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے ا مراض کا شکار ہیں، جب کہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد تقریباً 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی 30 لاکھ 50 ہزار آبادی اس مرض سے متاثر ہے۔ پاکستان میں اندھے پن کی شرح 1.08 فی صد ہے، جب کہ پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریباً 60 لاکھ کے قریب ہے۔
پاکستان کی 20 فی صد آبادی ذیابیطس کا شکار ہے، جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے، جس کے باعث آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں ڈیجیٹل اشیا جیسے کمپیوٹر اور موبائل فون کا ضرورت سے زاید استعمال ہماری بینائی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہورہاہے۔ جدید ٹیکنالوجی اشیا کی جلتی بجھتی اسکرین ہماری آنکھوں کی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہیں۔ اس کے باوجود ہم ان چیزوں کے ساتھ بے تحاشا وقت گزار رہے ہیں۔ موبائل کی نیلی اسکرین خاص طور پر آنکھوں کی مختلف بیماریوں جیسے نظر کی دھندلاہٹ، آنکھوں کا خشک ہونا، گردن اور کمر میں درد اور سر درد کا سبب بنتی ہے۔ ان اسکرینوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا نہ صرف آنکھوں کے لیے نقصان دِہ ہے، بلکہ یہ دماغی کارکردگی کو بھی بتدریج کم کردیتا ہے، جب کہ یہ نیند پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے اور انسان رات میں ایک پُرسکون نیند سونے سے محروم ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں نابینا افراد کو کار آمد شہری بنانے کے ادارے بہت کم ہیں اور ان خصوصی افراد کو کسی قسم کی سہولت یا آسانی بھی میسر نہیں۔ ان افراد کو روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، تا ہم کچھ نجی ادارے اس کارِخیر میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت بصارت سے محروم لیکن بصیرت افروز نابینا افراد کو باعزت روزگار دے کر یا مناسب وظیفہ مقرر کرکے ان کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانے میں موثر کردار ادا کرے۔ بلاشبہ قدرت جب کسی سے ایک نعمت لیتی ہے، تو اُن میں دوسری کئی صلاحیتوں کو بیدار کردیتی ہے۔ بصارت سے محروم نظرآنے والے یہ لوگ چشم بصیرت رکھتے ہیں۔ ان کے دل کی آنکھیں روشن، ان کے دماغ سوچ رکھنے والے اور قدرت کی نشانیوں کے عکاس ہیں ان افراد کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں سوسائٹی کا اہم ستون بنایا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔