پاکستان میں مخلوقِ خدا کو آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ پاکستانی سیاست دانوں کا سیاسی قاعدہ، قانون، ضابطہ اور نظریہ کیا ہے؟
ایک طرف یہ سیاست دان آرمی اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں بے جا مداخلت اور کردار کا رونا روتے ہیں، جب کہ دوسری طرف یہ آپ کو اُن کے بوٹ چاٹتے نظر آتے ہیں۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے دوبئی میں بیٹھ کر اسٹیبلشمنٹ کو دھمکی دی کہ آپ نے یہاں تین سال رہنا ہے اور ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ہم آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ دھمکی دینے کے بعد آصف علی زرداری کو جب یاد آیا کہ ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کا وسیلہ تو یہی ادارہ ہے، اُس نے اسٹیبلشمنٹ کے قدموں میں سجدہ ریز ہوکر توبہ کرتے ہوئے بیان واپس لے لیا۔
اس طرح ہمارے مقبول لیڈر میاں محمد نواز شریف جس کی پرورش اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں ہوئی ہے، نے ادارے کے سربراہ کو بزورِ بازو ہٹانے کی کوشش کی اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد اُسی اسٹیبلشمنٹ سے 10 سال سیاست میں حصہ نہ لینے اور جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے معاہدے پر ناک رگڑ لیا۔ میثاقِ جمہوریت اور پی سی بھوربن (مری) میں پاکستان پیپلز پارٹی سے معاہدہ کرکے شریکِ اقتدار ہوئے، مگر بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے اپوزیشن میں بیٹھ گئے۔ پھر 2017ء میں اقتدار سے محرومی کے بعد ’’ووٹ کو عزت دو!‘‘ کا نعرہ لگایا، لیکن اُسے بھی پسِ پشت ڈال دیا۔ اس کے بعد محترم لیڈر نے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتے ہوئے کہا: ’’مَیں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں!‘‘
پھر عدالت سے سزا پانے کے بعد بیماری کے بہانے عدالت ہی سے برطانیہ دوا لینے کی غرض سے چار ہفتوں کی ضمانت لی، مگر آج تک واپس نہیں آئے۔ برطانیہ سے پی ڈی ایم کے جلسوں سے ویڈیو لنک پر خطاب میں آرمی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگائے، لیکن ایک بار پھر بہ وجوہ خاموش ہوگئے۔
کچھ عرصہ قبل میاں محمد نواز شریف نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا نام لے لے کر متنبہ کیا کہ آپ کو اپنی زیادتیوں کا حساب دینا ہوگا، مگر اُس کے بعد پھر خاموشی چھاگئی۔ اِس صورت حال کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’’مارشل لا لگے، تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ سب بس پارلیمنٹ پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کچھ کرے، تو سب کو حلف یاد آجاتا تھا ہے، اور آپ ایک بار پھر اگلے مارشل لا کا درواز ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟‘‘
ہماری سیاست کا ایک تاریخی المیہ یہ بھی ہے کہ جو مسائل اور اختلافات سیاست دان خود حل کرسکتے ہیں، وہ بھی وقت کے آرمی چیف سے حل کروانا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی ہو، پانامہ لیکس کے تناظر میں 14 اگست 2014ء کو عمران خان اور مولانا طاہر القادری کا دھرنا ہو، یا اپریل 2022ء کو عمران خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد ہو، سب نے ان موقعوں پر آرمی چیف سے مدد طلب کی۔
سیاست دانوں کے دیکھا دیکھی ہمارے سرکاری ادارے بھی اُن کی راہ پر چلنے لگے ہیں۔ کوئی بھی ادارہ اپنی فرائضِ منصبی دیانت داری سے سرانجام نہیں دیتا۔ انھوں نے سب کچھ اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑ دیا ہے۔
قارئین! گذشتہ دنوں آرمی چیف نے بیان میں خبردار کیا کہ اب سمگلروں کا بھی کورٹ مارشل ہوگا۔ کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی۔
یہ اچھی بات ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کو سزائیں ملنی چاہئیں، مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ سولینز کے کورٹ مارشل کے خلاف موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان فیصلہ دے چکے ہیں۔ اب بھی سولینز کے کورٹ مارشل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست زیرِ سماعت ہے، جب کہ صدرِ پاکستان عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ پر دستخط نہیں کیے۔ پھر بھی سولینز کی کورٹ مارشل کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ معاشرے میں ہر جرم کے تدارک کے لیے پاکستان میں ادارے موجود ہیں۔ ہر ادارے کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اور ادارہ اس کی خلاف ورزی پر اپنے ادارے کے ملازمین کی خلاف تادیبی کارروائی کرتا ہے۔ کوئی کرپشن کرے، ملکی خزانہ لوٹے، تو اس کے لیے اینٹی کرپشن، ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے موجود ہیں، جب کہ ادارہ جاتی کارروائی اس کے علاوہ ہے۔ سمگلنگ، قتل و غارت گری، لوٹ مار، مار دھاڑ، بھتا خوری اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف اقدامات کے لیے پولیس فورس موجود ہے، جب کہ منشیات کی سمگلنگ اور کاروبار کرنے والوں کے خلاف اینٹی نارکاٹکس فورس اور پولیس کارروائیاں کرتی ہے۔ اس طرح مذکورہ جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کے لیے سول کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک کا عدالتی نظام موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر سمگلروں، قاتلوں، کرپٹ لوگوں، منشیات کا کاروبار کرنے والوں، بھتا خوروں اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کا کورٹ مارشل ہوگا، تو پھر ریاست کے ان بھانت بھانت کے اداروں کی ضرورت کیا ہے…… جو قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں! جب کہ یہ انسانی حقوق اور آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کررہا، تو اِدارے کا قبلہ درست کرنا چاہیے۔ ادارے میں جو کوئی بھی رولز ریگولیشن کے مطابق اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دیتا، تو اُس کے خلاف محکمانہ کارروائی کرکے نوکری سے فارغ کرنا چاہیے۔ غیر آئینی اقدامات ادارے کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔