5 اکتوبر اس مکتبۂ فکر کے لوگوں کا دن ہے جو کہ اپنے علم کے ذریعے عقل کو روشن کرنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ بلاشبہ انسانیت کی تعمیر و علمی ارتقا میں اساتذہ کا بنیادی کردار ہے۔
اساتذہ قوم کے معمار ہیں اور نوجوانوں کی سیرت کو سنوارنے، اُنھیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور اُن کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سر انجام دیتے آئے ہیں…… اور اپنی اَن تھک محنت سے نوجوانوں کو محقق، ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، سیاست دان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کار ہائے منصبی پر فائز کرتے چلے آئے ہیں۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
اساتذہ انسان کو ربّ رحمان سے آشنا کرتے، دنیا میں انسانیت سے محبت، امن اور اخوت کا پرچار کرتے…… اور جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے ختم اور علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور کرتے چلے آئے ہیں۔
بلاشبہ درس و تدریس وہ پیشہ ہے، جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے، لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے معلم کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اِس طرح اُجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو معلم کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے معلم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بحیثیتِ معلم بیان کی ہے۔ خود خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیاہے۔‘‘
خالقِ کائنات نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش 1 لاکھ 24 ہزار انبیائے کرام کو بھیجا۔ ہر نبی شریعت کامعلم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر بھی ہوتا تھا جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں زراعت اور صنعت کے معلمِ اوّل تھے۔ کلام کو ضبطِ تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے ایجاد کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علمِ مناظرہ اور حضرت یوسف علیہ السلام نے علمِ تعبیر کی بنیاد ڈالی۔
خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معلم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا، ’’تم میں سے بہتر شخص وہ ہے، جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘
اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام میں معلم کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلا و ارفع ہے۔ اسلام نے استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا، مَیں اُس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بناکررکھے!‘‘
5 اکتوبر کا دن دنیا بھر میں ’’ورلڈ ٹیچرز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن جہاں اساتذۂ کرام کی قدر و منزلت کے پہچاننے کا دن ہے، تو وہیں اساتذہ کے لیے غور کرنے کا دن ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی کو احسن طور پرسر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے طلبہ کی صحیح سمت میں رہنمائی کررہے ہیں یا اپنی خدمات کو محض ایک ڈیوٹی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔
ایک استاد کے لیے طلبہ کی تربیت، اُنھیں صحیح راستہ دکھانا، زندگی کے نشیب و فراز سے آشنا کرنا، مشکلات سے نمٹنے کا سلیقہ سکھانا، آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا اور معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے ہنر مندی کی اہلیت پیدا کرنا، بطورِ معلم اہم ترین فریضہ ہوتا ہے۔
نہ صرف طالب علم بلکہ والدین، رشتہ دار اور سب سے بڑھ کر ملک و قوم اساتذہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے کردار سے سماجی اور قومی قدروں میں اضافہ کریں گے۔
بلاشبہ اساتذہ کی محنت سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے لیے رکھے گئے اساتذہ کوپیشہ ورانہ اور معاشی نقصان پہنچا کر اُن کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ اساتذہ کو فریضۂ تدریس کی ادائی کی بجائے گھروں سے بچے اکٹھے کرنے، پولیو کے قطرے پلانے، ووٹنگ لسٹ بنانے، مردم شماری کرنے، اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں کے والدین کو لے جاکر ان کے کارڈ بنوانے کا کام لے کر بچوں کو تعلیم کے حقیقی ثمرات سے محروم کیا جا رہا ہے اور پھر اُن حالات کی ذمے داری اساتذہ پر ڈال کر اُن کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرکے اساتذہ کی تذلیل کی جاتی ہے۔ افسرانِ تعلیم کی جانب سے اساتذہ کو بلاجواز سزائیں دی جاتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کو پُرسکون طریقہ سے تدریس کا عمل جاری رکھنے کے لیے اُن کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کی جانی چاہئیں۔ اساتذہ کی ہیلتھ انشورنس کی جانی چاہیے، تاکہ وہ بہتر طور پر تدریسی خدمات سرانجام دے سکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔