پاک چین دوستی بارے باتیں تو بہت ہیں، اور بنائی بھی جاسکتی ہیں…… مگر دونوں ممالک سرکاری طور پر ایک دوسرے کو ’’آہنی بھائی‘‘ سمجھتے ہیں۔
جو لوگ اس تعلق میں مبالغہ کرتے ہیں، اُن کے نزدیک دونوں ممالک کی دوستی ’’ہمالیہ سے بلند، شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری‘‘ ہے۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
یوں تو کہانی 1950ء سے شروع ہوتی ہے، جب اس دوستی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ پاکستان نے چین کی عالمی تنہائی ختم کرنے میں مدد کی تھی، مگر ’’سی پیک‘‘ کے بعد اس دوستی کے شادیانے کچھ زیادہ تیز بجائے گئے۔ اب مگر لگتا ایسا ہے کہ چین بھی صرف دوستی کی حد تک دوستی نبھا رہا ہے، اور وہ جو سی پیک کے حوالے سے زیادہ شور ہورہا تھا، اب کم ہورہا ہے۔
قارئین! آپ کو یاد ہوگا اور اگر یاد نہیں، تو ہم یاد دہانی کے لیے عرض کردیتے ہیں کہ سی پیک جب شروع ہوا، تو چین اور پاکستان کے اعلا حکام پر مبنی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اُس کمیٹی کو ’’جوائنٹ کو آپریشن کمیٹی‘‘ (JCC) کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک اجلاس پاکستان، تو دوسرا چین میں ہوتا رہا اور دونوں جانب کے ماہرین سی پیک سے متعلقہ مختلف منصوبوں پر دماغ لڑاتے اور فیصلہ کرتے رہے۔ مذکورہ کمیٹی کے اب تک 12 اجلاس ہوچکے ہیں…… مگر اب لوگ شاید بھول بھی چکے ہیں کہ آخری اجلاس کب اورکہاں ہوا تھا…… اور اُس اجلاس کے فیصلوں پر عمل کتنا ہوا ہے؟
پاکستان کی حد تک تو ہم سب شاہد ہیں کہ مختلف سیاست دان اپنے مخالفین پر تواتر کے ساتھ الزام لگاتے رہے کہ اُنھوں نے سی پیک کو نقصان پہنچایا ہے۔ اصل معاملہ مگر چین کا ہے، جو اَب شاید یہ سمجھ چکا ہے کہ پاکستان میں اصل طاقت جن کے ہاتھ میں ہے، اُن کی ترجیحات اَب کچھ اور ہیں۔ اس لیے کچھ عرصے تک تو چین خاموش رہا، مگر اب اُس نے متبادل پر عمل شروع کردیا ہے۔ مذکورہ متبادل کا آغاز چین نے افغانستان سے کیا۔
پچھلے دنوں چین نے افغانستان میں اپنا سفیر مقرر کیا اور موصوف سفیر نے ایک پُررونق محفل میں ’’ارگ‘‘ ( افغان صدارتی محل) میں طالبان وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند کو اپنی اسنادِ سفارت پیش کیں۔
یاد رہے کہ پوری دنیا میں چین سمیت کسی نے بھی اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ باوجود اس کے چین کا وہاں سفیر مقرر کرنا گویا کہ چین کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہے۔
صرف اس پر بس ہوجاتی، تو بات کچھ بات تھی، لیکن چین نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ’’واخان کوریڈور‘‘ بنانے کے لیے طالبان حکومت سے معاہدہ کرلیا۔
واخان کی مختصر ترین پٹی افغانستان کا حصہ ہے، لیکن اس کوریڈور کی سرحدات تاجکستان، پاکستان اور چین کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ چین اس کوریڈور کو بنا کر افغان صوبہ شبرغان تک سڑک بنانے جارہا ہے۔ یوں یہ راہ داری فعال ہوکر چین افغانستان کے راستے چاہ بہار (ایران) تک راستہ اپنا لے گا۔
گوکہ سی پیک سے اب تک چین کو انکار نہیں، مگر پاکستان کے خراب معاشی اور خراب ترین سیاسی صورتِ حال میں چین نے بہرحال اپنے لیے ایک اور متبادل راستہ ڈھونڈلیا ہے۔
قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ دنوں پاکستان نے پاک افغان سرحدی گیٹ کو طورخم کے مقام پر 9 دنوں کے لیے بند کیے رکھا، جس سے یقینا دونوں جانب تاجروں اورمسافروں کو بڑا نقصان اُٹھانا پڑا…… مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو افغانستان کی حکومت پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہی کہ اس راستے کو کھولا جائے، تو دوسری جانب اسی دوران میں طالبان حکومت نے چاہ بہار (ایران) بندرگاہ کو اپنی درآمدات برآمدات کے لیے استعمال کیا۔ یوں اگر ہماری کچھ غلط فہمی ہے کہ چین کی دوستی اور افغانستان کی مجبوری سے ہم فیض یاب ہوتے رہیں گے، تو ممکن ہے کہ اس غلط فہمی کو دور کیا جائے۔ کیوں کہ نہ چین کی دوستی بے غرض ہے اور نہ افغانستان کی مجبوری دائمی ہی ہے۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شاید ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات کی کج روی دائمی صورت اختیار کرلے۔
ہم مسلسل’’حالتِ انکار‘‘ میں جی رہے ہیں…… جب کہ چین اور افغانستان مبنی برحقیقت فیصلے کرتے جا رہے ہیں۔ جتنی جلدی ہم حالتِ انکار سے نکلیں، اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ وگرنہ چین کی دوستی اور افغانستان کی مجبوری سے ہمارے مسائل حل ہونے والے نہیں۔
انتہا بھی اس کی ہے، آخر خریدیں کب تلک!
چھتریاں، رُومال، مفلر، پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کابل سے،کفن جاپان سے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔