ملک میں اِس وقت ڈینگی تو پھیل ہی رہا ہے، ساتھ میں آشوبِ چشم کی بیماری بھی بہت پھیل چکی ہے۔ رہی سہی کسر سموگ اور فضائی آلودگی نے پوری کردی ہے۔
فضائی آلودگی سے مراد ہوا میں مختلف زہریلے گیسی یا دیگر ذرات کا اخراج یا موجودگی ہے۔ اُن ذرات کا اخراج انسانی صحت اور مجموعی طور پر کرۂ ارض کے لیے نقصان دہ ہے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
فضائی آلودگی سے ہونے والے طویل مدتی صحت کے اثرات میں دل کی بیماری، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریاں جیسی وبائی امراض شامل ہیں۔ فضائی آلودگی لوگوں کے اعصاب، دماغ، گردوں، جگر اور دیگر اعضا کو طویل مدتی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ اُو) کے مطابق، ہر سال فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں لگ بھگ 70 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ 10 میں سے 9 انسان ایسی آلودہ ہوا میں سانس لیتے ہیں، جو ’’ڈبلیو ایچ اُو‘‘ کے رہنما اُصولوں کی حد سے تجاوز ہوتی ہے۔
فضائی آلودگی کو کسی بھی ذرائع کے تمام تباہ کن اثرات سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو ماحول کی آلودگی یا ماحولیاتی نظام کے خراب ہونے میں معاون ہوتا ہے۔ فضائی آلودگی، انسانی مداخلت اور قدرتی مظاہر دونوں کی وجہ سے ہے۔ فضائی آلودگی نہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، بلکہ زہریلی گیسوں کی وجہ سے یہ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی شکل میں ہوا کی آلودگی زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ کرتی ہے۔ دنیا کی91 فی صد آبادی ایسے مقامات پر رہتی ہے، جہاں کا فضائی معیار عالمی ادارۂ صحت کے بیان کردہ اُصولوں کے مطابق بہت خراب ہے۔
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طویل عرصے تک فضائی آلودگی سے متاثر رہنے کی صورت میں لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی فرق پڑسکتا ہے۔ منفی اثرات عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ افراد اِس سے متاثر ہوتے ہیں، جو کم تعلیم یافتہ ہیں۔
پنجاب کے بھٹہ خشت میں ’’زگ زیگ ٹیکنالوجی‘‘ کے استعمال سے اب اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیوں سے دھوئیں کے مرغولے نہیں نکلتے۔ ’’اینٹی سموگ سکواڈز‘‘ لاہور کے صنعتی علاقوں میں دن رات گشت کرکے دھواں پھیلانے والے کارخانوں کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔ کم سے کم جرمانہ 50 ہزار روپے کیا جاتا ہے اور کارخانہ سیل بھی ہوسکتا ہے۔
بھٹہ مالکان چند سکوں یا مالی فوائد کے لیے لاکھوں انسانوں کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں، اور ایسے آلات نصب کریں جس سے آلودگی کم سے کم پھیلے۔
پہلے پہلے تو ہمیں سموگ اور فضائی آلودگی کا احساس اس لیے نہیں ہوتا تھا کہ ہم اسے سردیوں میں دھند یعنی فوگ سمجھتے تھے۔ ’’سموگ‘‘ دراصل دھوئیں یعنی ’’سموک‘‘ اور دھند یعنی ’’فوگ‘‘ کے مرکب کو کہتے ہیں۔ اِس کا ظہور اُس وقت ہوتا ہے، جب آتش گیر ایندھن کا اخراج سورج کی روشنی کے ساتھ ردِ عمل دیتا ہے۔
سردیوں کے اوائل میں جب ہوا کم درجۂ حرارت کے باعث بھاری ہوتی ہے، تو فضائی آلودگی اس کے ساتھ مل کر ماحول میں ایک تہہ سی پیدا کرتی ہے، جس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید فضا ابر آلود ہے، لیکن درحقیقت یہ تہہ سورج کی روشنی اور زمین کے درمیان ایک جھلی کی طرح حائل ہوجاتی ہے۔
اگر اس کے نقصانات کا ذکر کریں، تو وہ یہ ہیں کہ سموگ آنکھوں اور گلے کو پریشان کرسکتی ہے اور پھیپھڑوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ خاص کر بچوں، بزرگ شہریوں اور باہر کام کرنے والے یا ورزش کرنے والے افراد کو متاثر کرسکتی ہے۔
اس طرح سموگ اُن لوگوں کے لیے بھی بدتر ہے جو دمہ یا الرجی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں ناکافی قانون سازی اور مناسب پالیسیوں کی عدم دست یابی کے نتیجے میں فضائی آلودگی کی اونچی سطح کی وجہ سے بیماریوں کے واقعات ہوتے ہیں، جو معاشرے پر بلا شبہ ایک بھاری مالی بوجھ بھی ہیں۔
اب بھی ہم میں سے اکثر لوگوں کو علم نہیں کہ ہوا کی کم رفتار اور نمی ’’پلوشن‘‘ کے ساتھ مل کر سموگ کو جنم دیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق لاہور میں 63 فی صد سموگ، موٹر سائیکل اور چنگ چی رکشے کی وجہ سے ہے۔ موٹرکار اور جیپ وغیرہ کی وجہ سے 11 فی صد سموگ ہوتی ہے۔
لاہور میں گذشتہ دہائی میں موٹر سائیکل اور رکشے کی فروخت میں 460 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ شیخوپورہ اور اوکاڑہ میں فصلوں کی باقیات جلانے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
اب سموگ کے خطرے کا موسم سر پر ہے اور پنجاب حکومت کا لاہور میں قائم سموگ کنٹرول روم فضائی آلودگی کی روک تھام کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کے لیے سر گرمِ عمل ہے۔
اس وقت بدقسمتی سے لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے۔ لاہور کے آلودہ ترین علاقے کا اے کیو آئی کبھی 180 سے اوپر نہیں گیا تھا، جب کہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے کے اثرات پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھی پڑتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے ورلڈ بینک سمیت عالمی فورمز پر بھارت میں فصلیں جلانے کا معاملہ بھی اُٹھایا ہوا ہے، جہاں تک فصلوں بالخصوص دھان کی باقیات جلانے کا تعلق ہے، تو دور دراز کے دیہات میں اس بری عادت کا تدارک نہایت مشکل کام ہے۔ کسان بھائیوں کی اکثریت کو دفعہ 144 کے نفاذ کا یا تو پتا نہیں ہوتا، یا وہ اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے لیے پوری تحصیل پر نظر رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ پنجاب حکومت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ پہلی بار خلائی تحقیق کے قومی ادارے سپارکو کے سیٹلائٹ کی مدد سے دور دراز کے علاقوں میں مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ اب کسی ضلع میں فصلیں جلانے کی اطلاع فوراً متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو دی جاتی ہے، جو متعلقہ پٹواری یا ریونیو سٹاف کے ذریعے کارروائی کرتا ہے۔
محکمۂ تحفظِ ماحول پنجاب کی طرف سے آلودگی پھیلانے والے سیکڑوں صنعتی یونٹس کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں کارخانے بند کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ فیکٹریاں تاحیات بند رہیں گی، بلکہ فضائی آلودگی میں کمی لانے والے آلات کی تنصیب اور جرمانے کے بعد اُنھیں کھول دیا جاتا ہے۔
فیکٹریوں کے علاوہ سموگ پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کا دھواں بھی ہے۔ ’’اینٹی سموگ سکواڈز‘‘ لاہور کے داخلی راستوں پر دھواں پھیلانے والی گاڑیوں پر نظر رکھ رہے ہیں۔
اس طرح فضائی آلودگی کی وجہ سے بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کے سبب نگران وزیرِ اعلا پنجاب محسن نقوی نے سموگ کے تدارک کے لیے اربن سڑکوں کو ڈسٹ فری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایل ڈبلیو ایم سی کو لاہور کی سڑکیں واش کرنے کا ٹاسک سونپ دیاگیا ہے۔ خاص کر لاہور کی سڑکوں پر جاری تعمیراتی کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے، تاکہ سڑک پر ٹریفک جام کا مسئلہ نہ ہو، جب کہ ماہرین اورسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ماحولیاتی پالیسی میں ترامیم اور فضائی آلودگی (سموگ) کو کنٹرول کرنے کے لیے فریم ورک کو حتمی شکل دی گئی ہے۔
اب صوبہ بھر کی ضلعی انتظامیہ تمام سٹیل ملوں اور فیکٹریوں میں غیر معیاری ایندھن کے استعمال کی پابندی پر سختی سے عمل در آمد کروا رہی ہے۔
اِس وقت ماحولیاتی آلودگی کے عوامل میں 43 فی صد کا تعلق ٹرانسپورٹ، 25 فی صد کا انڈسٹری، 12 فی صد کا پاور اور 20 فی صد کا زراعت کے شعبے سے ہے۔
ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے ’’سپیشل سموگ اسکواڈز‘‘ تشکیل دیے گئے ہیں، جب کہ گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے کے لیے وہیکل انسپکشن اینڈ سرٹیفیکیشن سسٹم (VICS) متعارف کرایا گیا ہے۔ امید ہے یہ کوششیں بارآور ثابت ہوں گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔