چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گارڈ آف آنر اور پروٹوکول نہ لے کر غریب ملک اور مجبور قوم پر احسان کیا ہے، بلکہ ایک ہی دن میں تین کیسوں کا فیصلہ سنا کر یہ بھی بتا دیا کہ وہ کس سپیڈ سے کام کریں گے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے ٹیلی وِژن پر جو سماں باندھا، وہ بھی لائقِ تحسین ہے۔ بلا شبہ پوری قوم نے پہلی بار دیکھا کہ فُل کورٹ کیا ہے اور جج کیسے اس میں کیس سنتے اور پھر فیصلہ سناتے ہیں!
ہماری سپریم کورٹ عام انسان سے لے کر بڑے سے بڑے سیاست دانوں تک اُمید کی کرن ہے۔ جسے ملک بھر سے انصاف نہ ملتا ہو، وہ سپریم کورٹ سے ضرور کامیاب ہوجاتا ہے۔ ہماری سپریم کورٹ کے جج باقی سب کے لیے بھی ایک مثال ہیں، جو بے دھڑک اور بلاخوف و خطر فیصلہ سناتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی ڈھیر سارے قابلِ ذکر فیصلے دیے اور جاتے جاتے جو اُنھوں نے نیب قوانین میں ترمیم ختم کی، وہ بھی ایک عمدہ اور تاریخی فیصلہ تھا کہ اب ملک لوٹنے والے یہ نہیں کہیں گے کہ ہم نیب کی دست رس میں نہیں آتے۔ یہاں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے لوٹ کر بھی کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتا، بلکہ سینہ چوڑا کرکے فخر محسوس کرتا ہے۔
ہمارا عدالتی نظام باقی دنیا سے مختلف اور پیچھے اس لیے ہے کہ ججوں کی تعداد کم ہے۔ ہمارے ہاں عدالتوں کے دو طبقات ہیں: اعلا عدلیہ اور ماتحت یا زیریں عدلیہ۔ اعلا عدلیہ سپریم کورٹ آف پاکستان، فیڈرل شریعت کورٹ اور پانچ ہائی کورٹس پر مشتمل ہے، جس میں سپریم کورٹ سب سے اوپر ہے۔ چاروں صوبوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری کے لیے ایک ہائی کورٹ ہے۔ پاکستان کا آئین اعلا عدلیہ کو آئین کے تحفظ اور اس کے دفاع کی ذمے داری سونپتا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے متنازع علاقوں میں الگ عدالتی نظام موجود ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے علاوہ ایسے علاقے بھی ہیں، جو اَب تک پاکستان کے آئینی حصے نہیں۔ اُن میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر ہیں۔ چوں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا گلگت بلتستان پر دایرۂ اختیار نہیں، اس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام زد اختیارات کے ساتھ گلگت بلتستان کے لیے سپریم اپیلٹ کورٹ کے نام سے "APEX” کورٹ موجود ہے، جس نے بھی ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے گلگت بلتستان میں ہونے والے الیکشن کا نتیجہ روکنے کے خلاف کیس فارغ کردیا۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے خورشید خان ن لیگ سے جیت گئے تھے، لیکن الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک رکھا تھا۔
خیر، یہ تو ہماری سیاست کا حصہ ہے کہ ہم مخالفین کو برداشت نہیں کرتے، بلکہ اُنھیں اگلا گھر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے سے لے کر اب تک کتنے ورکر پکڑے گئے، کتنے ابھی جیلوں میں ہیں اور کتنوں کو اب بھی تنگ کیا جارہا ہے! میاں عباد فاروق کا بیٹا بھی اسی چکر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
خیر، سیاست کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ واپس آتے ہیں عدالتی نظام کی طرف…… ہمارے ہاں عدلیہ کی آزادی وقت کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت ہماری عدلیہ کے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہیں، تو غلط نہیں ہوگا۔ اعلا عدلیہ کے بعد ماتحت عدلیہ کا کام بھی لوگوں کو انصاف پہنچانا ہے۔ ماتحت عدلیہ میں سول اور فوج داری ضلعی عدالتوں اور متعدد خصوصی عدالتیں شامل ہیں جو بینکنگ، انشورنس، کسٹم اور ایکسائز، سمگلنگ، منشیات، دہشت گردی، ٹیکسیشن، ماحولیات، صارفین کے تحفظ اور بدعنوانی کا احاطہ کرتی ہیں۔ فوج داری عدالتیں کرمنل پروسیجر کوڈ 1898ء کے تحت بنائی گئی تھیں اور دیوانی عدالتیں ویسٹ پاکستان سول کورٹ آرڈیننس 1962ء کے ذریعے قائم کی گئی تھیں، یہاں ریونیو عدالتیں بھی ہیں، جو ویسٹ پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967ء کے تحت کام کرتی ہیں۔ حکومت انتظامی عدالتیں بھی قائم کرسکتی ہے اور مخصوص معاملات میں خصوصی دایرہ اختیار استعمال کرنے کے لیے ٹربیونلز بھی۔
2017ء تک پاکستان کی عدلیہ 20 لاکھ مقدمات کے بیک لاگ کا شکار تھی، جن کے حل ہونے میں اوسطاً دس سال لگتے ہیں۔ اُن میں تقریباً 90 فی صد دیوانی مقدمات میں زمین کے تنازعات شامل ہیں، جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں زمین کا مناسب رجسٹر نہ ہونا بھی شامل ہے۔
بات سپریم کورٹ سے شروع ہوئی تھی، تو یہ بھی جان لیں کہ ہماری سپریم کورٹ 1956ء میں قائم ہوئی تھی، جو قانونی اور آئینی تنازعات کا حتمی ثالث ہے۔ عدالت 1 چیف جسٹس اور 16 دیگر ججوں پر مشتمل ہے۔ عدالت میں قائم مقام ججوں کے ساتھ ساتھ ایڈہاک ججوں کے تقرر کا بھی انتظام ہے۔ اسلام آباد میں اس کی مستقل نشست کے ساتھ ساتھ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں برانچ رجسٹریاں ہیں۔ سپریم کورٹ کے پاس متعدد ڈی جیور اختیارات ہیں جو آئین میں بیان کیے گئے ہیں، جن میں بشمول اپیل اور آئینی دایرۂ اختیار اور انسانی حقوق کے معاملات کو آزمانے کے لیے از خود اختیار جب کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی نگرانی سپریم جوڈیشل کونسل کرتی ہے۔
اسی طرح پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت 1980ء میں تمام پاکستانی قوانین کی جانچ پڑتال اور یہ تعین کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی کہ آیا وہ ’’قرآن و سنت میں بیان کردہ اسلامی اقدار‘‘ کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی قانون ناپسندیدہ پایا جاتا ہے، تو عدالت اپنے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے متعلقہ حکومت کو مطلع کرتی ہے۔ عدالت کے پاس اسلامی قانون کے تحت پیدا ہونے والی سزاؤں (حدود) پر اپیل کا دایرۂ اختیار بھی ہے۔ اس عدالت کے فیصلے اعلا عدالتوں کے ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ پر بھی پابند ہیں۔ عدالت اپنا عملہ خود مقرر کرتی ہے اور طریقۂ کار کے بھی اپنے اصول بناتی ہے۔ یہ عدالت آٹھ مسلم ججوں پر مشتمل ہے، جنھیں صدرِ پاکستان سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹسں کی عدالتی کمیٹی کے مشورے پر مقرر کرتے ہیں۔ کمیٹی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ججوں میں سے یا ہائی کورٹ کے ججوں کی اہلیت رکھنے والے افراد میں سے انتخاب کرتی ہے۔ آٹھ ججوں میں سے تین کا اسلامی اسکالر/ عالم ہونا ضروری ہے، جو اسلامی قانون میں مہارت رکھتے ہوں۔ یہ جج صاحبان تین سال کی مدتِ ملازمت کے لیے آتے ہیں اور ملک وقوم کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام اپنے چیف جسٹس کی مکمل پیروی کرتا ہے۔
اُمید ہے کہ وہ بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پیروی کرتے ہوئے کیسوں کو جلد سے جلد میرٹ پر اپنے انجام تک پہنچا کر مظلوموں کو انصاف فراہم کریں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔