ہمارے ہاں روایات کے نام پر اولاد کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کا رواج صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ خاص طور پر بیٹیوں کو تو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا…… جانوروں کی طرح اُن کا سودا کر دیا جاتا ہے۔ اُن کی شادی کو 100 فی صد اپنی مرضی سے طے کرنا بھی تو سودا ہی ہوا ناں……!
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
کس قدر ظلم کی بات ہے کہ جس انسان کی پوری زندگی کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اُس کی مرضی کا لحاظ رکھنا تو درکنار، اُس سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔
دیہات میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جوان لڑکی کی منگنی ایسے بچے سے کر دی جاتی ہے، جو ابھی پیدا ہی ہوا ہوتا ہے۔ لڑکی اپنے دولہے کو گود میں اُٹھا کر کھلاتی پھرتی ہے۔ اپنی جوانی کی تمام امنگیں اور ارمان دفنا کر اور بابل کی پگ کے شملے کی لاج نبھانے کی خاطر وہ اپنی تمام خواہشات کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ اُس کو بچپن ہی سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں بیٹیوں کی قسمتوں کے فیصلے اِسی طرح ہوتے ہیں۔
برادری اور خاندان کی ایسی مثالیں بیٹی کے کانوں میں مسلسل انڈیلی جاتی ہیں، جب بڑوں کے فیصلے کو مانتے ہوئے بیٹی کی شادی اپنے سے 20 سال چھوٹے لڑکے سے اس وجہ سے کر دی گئی تھی کہ بھائیوں کا رشتہ مضبوط رہے…… اور بیٹی شریکوں میں نہ بیاہنی پڑے۔
یہ بات کوئی نہیں بتاتا کہ جب وہ لڑکا جوان ہوتا ہے، تو اُس کی منگیتر ادھیڑ عمر ہوچکی ہوتی ہے۔ کئی دفعہ تو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکی ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر مرد اولاد کی خاطر دوسری شادی کرلیتا ہے اور روایات کی بھینٹ چڑھ جانے والی وہ بد نصیب اپنے سوتن کے بچے کھلاتی اور بے اولادی کے طعنے سنتی اپنی زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔
اسی طرح کی بے جوڑ شادی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جوان لڑکے کی تایا، چاچے یا مامے کی نومولود بیٹی سے منگنی کر دی جاتی ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جوان بچوں کے باپ ادھیڑ عمر مرد سے اس کی کزن کی شادی اس لیے کر دی جاتی ہے کہ برادری سے باہر رشتہ داری کا رواج نہیں ہوتا، یا پھر غیر برادری میں جائیداد دینا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجے کے طور پر بیٹی کو رواجوں، خواہشوں یا لالچ کی قربان گاہ پر ذبح کر دیا جاتا ہے۔
ایک اور رواج بھی ہمارے ہاں پایا جاتا ہے، جس پر اولاد کی قربانی دینا فرض سمجھا جاتا ہے۔ 85 یا 90 سالہ دادا، دادی، نانا یا نانی جو بسترِ مرگ پر موت کے انتظار میں پڑا ہوتا ہے، اچانک اُس کی طرف سے مرنے سے پہلے کسی پوتے پوتی یا نواسے نواسی کی آپس میں شادی کرنے اور آخری خوشی دیکھنے کی خواہش جاگ اُٹھتی ہے۔ اُسے اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ لڑکا اور لڑکی کا آپس میں کوئی جوڑ ہے یا نہیں……! وہ نہیں سوچتا کہ لڑکا اجڈ گنوار اور لڑکی اعلا تعلیم یافتہ ہے، یا لڑکا پڑھا لکھا اور لڑکی بالکل اَن پڑھ ہے۔ اُن کی آپس میں نہیں بنے گی۔ یہ دو چار دن یا مہینوں کا نہیں بلکہ زندگی بھر کا بندھن ہے۔ ایسی عمر میں جب کہ انسان کو اپنے جسمانی اعضا پر بھی کنٹرول نہیں رہتا، وہ بزرگ دوسروں کی زندگیوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی خواہش کا اظہار کر دیتا ہے۔ جن کی زندگی ہے، اُن سے جینے کا حق چھیننا چاہتا ہے۔ وہ دوسروں کی زندگی اپنی موت کے بعد بھی جینا چاہتا ہے۔
قارئین! اگر کوئی بزرگ ایسی خواہش کا اظہار کرے، تو خدارا اُس کی خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیں۔ جس بندے یا بندی نے اتنی عمر گزار دی اور خوشی نہیں دیکھی اور اپنی عمر کے آخری دو چار مہینوں میں خوشی ڈھونڈ رہا ہے، اُسے ایسی خوشی دیکھنے کا کوئی حق نہیں، جو دوسروں کی خوشی کا جنازہ نکال کر حاصل کی گئی ہو۔
خدارا! ایسے بابوں اور مائیوں کی آخری خوشیوں اور خواہشوں کی بھینٹ اپنی اولاد کو مت چڑھائیں۔
اور ہاں……! یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کے بھائی یا بہن نے آپ سے جتنا ملنا ہے، وہ اتنا ہی ملیں گے۔ بچوں کی بہن بھائی کے ہاں شادیاں کروا کر ملنے کے بہانے مت تلاش کریں۔ اگر بچوں کے ذہن آپس میں نہ ملیں، تو بعد میں یہی رشتے زہریلے بن جاتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ آپس میں بچوں کی شادیاں کرنے والے بہن بھائی بھی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔
ایک اور بات، اپنے بچوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ شادی کی ذمے داریوں کو نبھا سکیں، نہ کہ اپنے سر سے بلا اُتار کے کسی دوسرے کے سر پہ ڈال دیں۔ اَب اس رِیت کو بھی ختم ہونا چاہیے کہ آپ کے بگڑے ہوئے صاحب زادے کو اس کی دُلھن آ کر سنبھال لے گی۔ بگڑے تگڑے بچے کبھی شادی سے نہیں سدھرتے، بلکہ اپنے موجودہ رشتوں کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کے لیے بھی عذاب بنے رہتے ہیں۔
ایسی اولاد کی خاطر کسی بیٹی کی زندگی برباد مت کریں۔
والدین کو چاہیے کہ جب بھی اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ دیکھنے جائیں، تو پہلے اپنے بچے، اپنے گھر اور اپنی اوقات کو دیکھیں…… اُس کے بعد کوئی فیصلہ کریں، ورنہ آپ دوسروں میں نقص ہی نکالتے رہیں گے۔
قارئین! زندگی ایک بار ملتی ہے، اس کی قدر کیجیے۔ آپ نے اپنی زندگی گزار لی۔ اب دوسروں کی زندگی جینے کی کوشش مت کریں۔ اولاد کو اپنی خواہشات کی قربان گاہ پر مت چڑھائیں۔ اُن کی شادی ایسی جگہ کریں، جہاں اولاد خوش رہے، ایسی جگہ اولاد کی شادی کا مت سوچیں جہاں آپ خوش رہیں…… کیوں کہ آپ نے اپنی زندگی گزار لی۔ اب اولاد کو اُن کی زندگی گزارنے دیجیے۔یہی اولاد آگے جاکر خود والدین کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جو ظلم آپ کرنے جا رہے ہیں، کل وہی ظلم وہ اپنی اولاد پر کریں۔ یہی تو مکافاتِ عمل کہلاتا ہے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔