کھیلوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس حوالہ سے ایک مقولہ مشہور ہے کہ جس معاشرہ میں کھیلوں کے میدان آباد ہوں، وہاں کے ہسپتال ویران ہوجاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی میں کھیلوں کی کتنی اہمیت ہے؟ کھیل کھیلنے سے ہم طاقتور اور صحت مند رہتے ہیں۔ مختلف کھیل کے کھلاڑی پڑھائی میں بھی اوروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ کھیل ہر عمر کے لوگوں میں مقبول ہیں۔ کیوں کہ اس سے لوگ فٹ رہتے ہیں۔ کھیل کی بہت سی اقسام ہیں لیکن فٹ بال، کرکٹ اور ہاکی اس کی بڑی قسمیں ہیں۔ جو لوگ جسمانی کھیل نہیں کھیلتے، ان کا اسٹمنا بھی اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا کہ ایک کھلاڑی کا ہوتا ہے۔ جسمانی کھیل نہ کھیلنے سے ہم ایک کھلاڑی جتنا پیدل نہیں چل سکتے۔ کھیل ہماری زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ کھیل میں حصہ لینا صرف نوجوانوں کیلئے نہیں بلکہ بڑی عمر کے افراد کے لئے بھی لازمی شے ہے۔ اس طرح کھیل کیلئے مخصوص جگہ کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، جس میں کھلاڑی آسانی اور آزادی کے ساتھ کھیل سکے۔ اس کے لئے ایک بڑے سے میدان کا ہونا ضروری ہے۔
سوات میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مختلف ادوار میں سوات کے کھلاڑی مختلف کھیلوں میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے چلے آ رہے ہیں۔پھر چاہے کرکٹ ہو یا کوئی اور کھیل، ہمارے کھلاڑی محدود سہولیات میں اپنے کھیلنے کا شوق پورا کرتے ہیں اور ملک کا نام بھی روشن کرتے ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ہر یونین کونسل میں کھیل کا میدان بنائے گی۔ مگر ماننا پڑے گا کہ یہ تو محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے داغا جانے والا بیان تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یوسی تو دور، اب تک پورے سوات میں ایک بھی نیا گراؤنڈ نہیں بن پایا۔
اب آتے ہیں سوات کے گراسی گراؤنڈ کی طرف جو ایک تاریخی گراؤنڈ ہے۔ اسے غالباً 1952/53ء میں بنایا گیا تھا۔ والئی سوات اسے کبھی بھی سیاسی مجلسوں کیلئے استعمال نہیں کرتے تھے، لیکن بدقسمتی سے آج اس گراؤنڈ میں آئے دن سیاسی جلسے جلوس کئے جاتے ہیں۔ گراؤنڈ کو ایک طرح سے سیاسی قوت کے مظاہرہ کا میدان بنادیا گیا ہے۔ گراؤنڈ کو آج کل عوام کے ساتھ جھوٹے وعدوں اور قسموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بھئی، یہ ’’سیاسی قوت‘‘ کے مظاہرے کے لئے نہیں بلکہ کھیلنے اور اپنے ٹیلنٹ کو نکھارن کیلئے بنایا گیا ہے۔ اس میں جسمانی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جائے نہ کہ ’’سیاسی قوت‘‘ کا۔ جب بھی کسی پارٹی کی طرف سے گراسی میں ’’سیاسی قوت‘‘ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، تو اس کے بعد یہ کھیلنے کے قابل نہیں رہتا۔ اور بڑے شرم کی بات ہے کہ ’’سیاسی قوت‘‘ دکھانے کے بعد دنیا جہان کی گندگی یہاں ڈال کر پھر ’’قوت‘‘ دکھانے والوں کو اتنی توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی کہ کم از کم یہاں ڈالا جانے والا گند تو صاف کریں، گراؤنڈ کی لیولنگ یا دوبارہ بحالی تو بہت بڑی بات ہے۔
گراسی گراؤنڈ پر صوبائی حکومت کے ایک ضلعی کونسلر ’’جانان‘‘ نے اپنے فنڈ سے پورے 5 لاکھ روپے بھی لگائے تھے، ریاستی دور کے بعد اس میں بحالی کا کچھ کام دیکھا گیا تھا، لیکن حالیہ جلسوں کے بعد اس کی شکل کچھ یوں بگاڑ کر رکھ دی گئی ہے کہ اب 10 لاکھ روپیہ لگا کر بھی شائد ہی اسے بحال کیا جاسکے۔
کتنے شرم کی بات ہے کہ جب بھی ہم کسی ٹورنامنٹ کی کوریج کیلئے جاتے ہیں، تو کھلاڑی حضرات خصوصاً نوجوان فٹ بالر ’’محمد ایاز‘‘ اور سٹی بال فٹ بال کمیٹی ہمیشہ یہی فریاد کرتی ہے کہ ہم ٹورنامنٹ اپنے پیسوں سے منعقد کرتے ہیں۔ کسی ادارے یا حکومت کی طرف سے کوئی فنڈ نہیں ملتا۔ اس ضمن میں ڈی سی سوات ڈاکٹر عامر آفاق سے بار بار درخواست کی گئی ہے کہ گراؤنڈ میں سیاسی جلسے جلسوں کی اجازت نہ دی جائے، لیکن اس کے باوجود یہاں زور و شور سے جلسوں کی اجازت دی جاتی ہے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ ضلعی حکومت نوجوانوں کے کھیل کود کے خلاف ہے؟
……………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔