افغانستان سے انخلا کا فیصلہ ایک پیچیدہ عمل تھا۔ انخلا کیے بغیر امن کو موقع فراہم کرنا مشکل ہوگیا تھا، جس کا کوئی آسان جواب نہیں تھا…… لیکن بالآخر، صدر بائیڈن نے سابق صدر کے فیصلے پر تمام تر تحفظات و خدشات کے باوجود انخلا کرکے افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام پر چھوڑ دیا۔
افغانستان میں جنگ 20 سال سے جاری تھی…… اور یہ واضح تھا کہ یہ جیتنے والی جنگ نہیں تھی۔ افغان طالبان دوبارہ منظم ہو رہے تھے اور طاقت حاصل کر رہے تھے۔ افغان حکومت تیزی سے کرپٹ اور غیر موثر ہوتی جا رہی تھی۔ امریکہ اس جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ کرچکا تھا اور ہزاروں امریکی فوجی ہلاک یا زخمی ہوچکے تھے۔ یہی وقت تھا کہ امریکہ اپنے فوجیوں کو گھر لے آتا اور اس نہ ختم ہونے والے تنازع کو ختم کرتا۔ افغان طالبان نے تیزی سے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا. لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی، تو افراتفری پھیل گئی…… لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ اب ہم افغانستان میں زمینی جنگ نہیں لڑسکتے۔
قادر خان یوسف زئی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/qadar-khan-yousafzai/
امریکی وزیرِ خارجہ اپنے فیصلے کو درست قرار دیتے ہیں کہ افغانستان سے انخلا کا فیصلہ مشکل تھا، لیکن یہ درست تھا۔ ہم نے امریکہ کی سب سے طویل جنگ ختم کر دی…… اور ہمارے پاس اب نوجوان امریکیوں کی ایک اور نسل نہیں، جو لڑنے اور مرنے کے کام آئے۔
اپنے بیان میں بلینکن کا یہ کہنا درست ہے کہ افغانستان سے انخلا ناقابلِ یقین حد تک مشکل تھا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جو اُن سے پہلے کئی صدور کرچکے تھے، لیکن اُن میں سے کوئی بھی اس پر قائم نہیں رہ سکا، لیکن بائیڈن نے دست برداری کا فیصلہ کیا، اور وہ اس پر قائم بھی رہے۔ افغانستان کی جنگ ایک طویل اور مہنگی جنگ تھی اور اس نے اپنے مقاصد بھی حاصل نہیں کیے۔ افغان طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے، لیکن کم از کم اب امریکی اور غیر ملکی فوجیوں، اہل کاروں اور سہولت کاروں کی زندگیاں بچ گئی ہیں، جو جنگ میں بلا وجہ مارے جا رہے تھے۔ امریکہ اپنے جن مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا، بادی النظر میں اس میں کامیابی تو ہوئی، لیکن وہ افغانستان کو اپنی کالونی بنانے میں ناکام ہوئے۔
اس جنگ پر امریکہ میں ان کی ایک نسل ماری جا رہی تھی، جو بے معنی جنگ کا ایندھن بن چکے تھے۔ ان کے شہریوں میں خوف و ہراس تھا۔ ان کے ملک کی آمدنی عوام کی بجائے جنگ پر صرف ہو رہی تھی۔ اس امر پر مثبت سوچ رہے ہیں کہ افغانستان کے انخلا پر اُنھیں فخر ہے، تو اس بیان کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ کیوں کہ امریکہ کی سب سے طویل جنگ ختم ہوچکی…… اور ان کے پاس نوجوان امریکیوں کی ایک اور نسل نہیں، جو لڑنے اور مرنے کے لیے جاسکے۔
تاہم دوسری جانب سیکرٹری بلنکن کا یہ بیان افغانستان سے انخلا کے فیصلے کو درست ثابت کرنے اور اس کا دفاع کرنے کی ایک کوشش قرار دی گئی، جسے بہت سے مبصرین اور اتحادیوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی اور انسانی تباہی کے طور پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ قومی مفاد اور امریکی عوام کی مرضی کی بنیاد پر انخلا ایک مشکل لیکن ضروری انتخاب تھا۔ کابل ہوائی اڈے سے 12,0000 سے زیادہ لوگوں کا انخلا منظم اور موثر انداز میں کیا گیا، لیکن آج بھی اُنھیں وہ حقوق نہیں ملے جن کا وہ مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہاں امریکی حکومت پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ انخلا کا مطلب یہ نہیں تھا کہ افغان عوام، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور سول سوسائٹی کے لیے امریکی مصروفیت اور حمایت کا خاتمہ ہو۔ انخلا سے امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں اور وعدوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کیوں کہ امریکہ کسی اور جگہ سے کسی بھی خطرے کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔
سیکرٹری بلنکن کے بیان کو کئی چیلنجز اور سوالات کا سامنا ہے۔ انخلا، مزید جانی نقصان کو روکا کیوں نہیں؟ جب اُس نے امریکی مشن کے ساتھ کام کرنے والے یا اُس کی حمایت کرنے والے ہزاروں افغانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جنھیں مسلسل خطرے کا سامنا ہے۔ مزید برآں کس طرح انخلا ایک منظم اور موثر عمل کی عکاسی کرتا ہے، جب یہ افراتفری، الجھن، تشدد اور المیہ کا شکار تھا، جیسے کہ کابل ہوائی اڈے پر خود کُش بم حملہ جس میں 13 امریکی فوجی اور 170 سے زیادہ افغان ہلاک ہوئے تھے؟
اس طرح یہ سوال بھی تواتر سے اٹھ رہا ہے کہ انخلا کس طرح امریکی انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیتوں اور وعدوں کو برقرار رکھ سکتا ہے، جب اُس نے طاقت کا خلا اور دہشت گرد گروہوں، جیسے کہ القاعدہ اور ISIS خراسان کے لیے ایک ممکنہ محفوظ پناہ گاہ پیدا کر دی، در حقیقت سیکرٹری بلنکن کا بیان ایک ایسا بیان ہے جو منفی نتائج پر مثبت تاثر بھی پیش کرتا ہے۔
افغانستان سے انخلا کے نتائج میں حقائق، مبہم وعدوں اور پُرامید مفروضوں کا استعمال کیا گیا۔ یہ ان تنقیدوں اور خدشات کو دور کرنے یا تسلیم کرنے میں ناکام ہے، جو بہت سے اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین نے اٹھائے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اُن لوگوں کو قائل یا مطمئن نہ کرسکے، جو صورتِ حال کا زیادہ ایمان دار اور حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کے خواہاں ہیں۔
31 اگست تک افغان طالبان، کابل ہوائی اڈے پر اُن غیر ملکیوں کی حفاظت کر رہے تھے، جنھوں نے چار دہائیوں سے کبھی اسلام کے نام پر، تو کہیں جمہوریت کے نام پر جنگ مسلط کی تھی۔ دو برس گزر جانے کے باوجود افغان عبوری حکومت کا عالمی سطح پر تسلیم نہ کیا جانا ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب افغان طالبان کے پاس ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔