عمران ریاض خان رہا ہونے جا رہے ہیں؟

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ صحافت ایک "Thankless” جاب ہے۔ اصولوں کی پاس داری کرنے والا صحافی ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے۔ وہ جس شخص کو حق پر یا مظلوم سمجھتے ہوئے اُس کی حمایت کر رہا ہوتا ہے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ مظلوم نظر آنے والا یا حق کا علم بردار شخص چوٹی کا اداکار نکلتا ہے۔ وہ صحافی کے ذریعے اپنے وزن یا قد میں اضافہ کرتا ہے اور اس اضافے کی پوری پوری قیمت دوسری پارٹی سے وصول کرلیتا ہے، جب کہ نادانستگی میں صحافی استعمال ہو جاتا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
عوام (خصوصاً خواص) کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے بعض سیانے صحافی بھی اب اپنے کام کی انجام دہی کے لیے اپنا حصہ وصول کرلیتے ہیں۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں کہ اپنی صلاحیت کے استعمال کا معاوضہ لینے میں کوئی برائی یا عیب نہیں۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ آپ اپنے آپ کو سچائی کا طرف دار سمجھتے ہوئے اپنے کام کو ایک مشن سمجھ کر انجام دے رہے ہوں۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس مشن کے لیے آپ کو برین واشنگ کے عمل سے تیار کیا گیا ہو، اور آپ اس پر ایمان لے آئے ہوں۔
عمران ریاض خان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ وہ فطرتاً دلیر بھی ہے اور جذباتی بھی۔ اُس جیسا شخص جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہے، تو پھر اُسے اُس فیصلے سے پیچھے ہٹانا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص ساری کشتیاں جلا کر سینہ سپر ہو جاتا ہے۔
عمران ریاض کے سامنے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو ایک دیوتا بنا کر پیش کیا گیا، تو اُنھوں نے اُسے ’’بھگوان‘‘ مان لیا۔ اُنھوں نے عمران خان کو ہر اچھائی اور برائی سمیت قبول کرلیا۔ یہ جذبہ، پسندیدگی سے بہت آگے کا تھا۔ پیار، محبت اور عشق بھی اس جذبے کے آگے ہیچ تھے۔ یہ جنون تھا جس نے عمران ریاض کو عمران خان کا مجنوں بنا دیا تھا۔ اُنھوں نے عمران خان کے لیے اپنے قلم کو تلوار اور زبان کو بندوق بنالیا۔ وہ صحافی سے سیاسی ورکر بن گئے۔ پھر ترقی کر کے سیاسی ورکر سے خان کے سپاہی بن گئے۔ ایسے سپاہی جو خان کی فوج کے ہراول دستے میں تھے۔ اُنھوں نے عمران خان کے مخالفین کو نشانے پر رکھ لیا اور تاک تاک کر وار کرنے شروع کر دیے۔
اس میدان میں وہ اکیلے نہ تھے۔ دیگر بہت سے صحافی بھی اُن کی طرح کسی نہ کسی پارٹی سے وابستہ تھے اور اپنے قلم یا زبان کی مزدوری کا معقول معاوضہ وصول کر رہے تھے، مگر اُنھوں نے جیالے، متوالے یا ٹائیگر کا روپ نہ دھارا تھا۔ وہ اپنی صحافتی حدود کو سمجھتے تھے اور ان حدود کے اندر رہ کر ہی کام کر رہے تھے۔
عمران ریاض کو پیار سے سمجھایا گیا کہ نازیبا زبان اور سخت جملوں کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔ پھرسختی سے سمجھانے کی کوشش کی گئی، مگر وہ ضد پکڑچکے تھے۔ اس ضد کے لیے پی ٹی آئی ورکرز نے مہمیز کا کام کیا، جو 24 گھنٹے اُسے ہیرو بنا کر پیش کر رہے تھے۔
دوسری طرف اُن کے وی لاگ کو پی ٹی آئی سپورٹر ہونے کی وجہ سے بے حد مقبولیت مل چکی تھی اور اس سے اُنھیں اچھی خاصی آمدنی ہو رہی تھی، چناں چہ وہ اَڑ گئے۔ کوئی ترغیب یا دھمکی اُن پر کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
پھر ایک دن عمران ریاض غائب ہوگئے۔ یہ ہنوز راز ہے کہ خود غائب ہوئے یا کیے گئے؟ اُن کی بیوی بچے اور والدین کی پریشانی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کوئی عدالت یا ادارہ اُنھیں بازیاب نہ کروا سکا۔
عمران خان نے دو تین بار اُن کا ذکر ضرور کیا، مگر اُن کے لیے موثر آواز اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔ اب وہ عمران خان کے کسی کام نہ آ سکتے تھے۔ چناں چہ اُن کے لیے ایسا ٹشو پیپر بن گئے، جو استعمال ہوچکا تھا۔
پی ٹی آئی ورکرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے لیے بھی وہ بھولی ہوئی داستان بن گئے۔ اُن کی گم شدگی سے پارٹی کو کوئی فرق پڑا، نہ خان پر کچھ اثر ہوا۔ فرق پڑا، تو خود عمران ریاض یا اُن کے خاندان کو۔ فرق پڑا تو اُن کے بیوی اور بچوں کو۔ جن بیوی بچوں کو بھول کر وہ مشنری جذبے کے تحت نہ جیتی جانے والی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ بیوی بچے اُن کی جدائی اور تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اُمید اور نااُمیدی کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں جب کہ جن کی خاطر اُنھوں نے یہ جنگ لڑی تھی، اُن کے نزدیک وہ قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔
معروف صحافی جاوید چوہدری نے خبر دی ہے کہ تین دن پہلے عمران ریاض کے سب سے بڑے ٹارگٹ اور معتوب میاں نواز شریف نے انسانی حقوق کے تحت عمران ریاض کے لیے آواز ہی نہیں اُٹھائی بلکہ اعلا سطحی رابطہ کرکے اپیل بھی کی ہے کہ اگر عمران ریاض کسی سرکاری ایجنسی یا ادارے کے پاس ہیں، تو اُنھیں بازیاب کر کے فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے۔
میاں نواز شریف کے اس اعلا سطحی رابطے کے بعد عمران ریاض کی بازیابی اور رہائی کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ یہ عمران ریاض کے لیے قدرت کی طرف سے فراہم کیا گیا خود احتسابی کا بھی ایک موقع ہے۔ اُنھیں رہائی کے بعد ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا کہ اُنھیں آیندہ زندگی بطورِ صحافی گزارنی ہے یا بطورِ سیاسی ورکر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے