ترجیحات بہت اہم ہوتی ہیں۔ ترجیحات بنانے اور بدلنے میں میڈیا کا کردار اہم ترین ہوتا ہے۔
ہٹلر نے ’’پراپیگنڈے‘‘ کا سہارا لے کر خود کو جرمنی کا عظیم لیڈر بنا دیا تھا۔ پھر ’’ہولو کاسٹ‘‘ ہوا…… اور امریکی سرپرستی میں مغربی میڈیا نے ہٹلر کو ایک بدترین آمر ثابت کردیا۔ اب رہتی دنیا تک جب بھی ’’ہولو کاسٹ‘‘ کا نام لیا جائے گا، تو ہٹلر کو ظالم ہی گردانا جائے گا۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
ایک طویل عرصے تک مغربی میڈیا نے روسی صدر پیوٹن کو بھی ایک آمر کے روپ میں دیکھا اور دکھایا۔ اس طرح شمالی کوریا کے کوتاہ قد سربراہ نے بھی میڈیائی پراپیگنڈے کے ذریعے خود کو عوام کا نجات دہندہ مشہور کیا۔ آج ’’گلوبل اسٹریٹ‘‘ یعنی عالمی محلے میں بھی شمالی کوریا یک و تنہا ہے۔
خلیجی ممالک میں بھی ریاستی سرپرستی میں چلنے والے میڈیا نے وہاں رائج بادشاہت اور آمریت کو دوام بخشا۔
میڈیائی پراپیگنڈے کے اثرات اتنے وسیع اور پُراثر ہوتے ہیں کہ روس افغان جنگ میں لڑنے والوں کو عالمی سطح پر ’’مجاہدین‘‘ مانا جاتا تھا۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا اور وہی مجاہدین ’’دہشت گرد‘‘ کہلائے۔ دنیا بھر میں ایسے سیکڑوں مثالیں موجود ہیں، جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ایٹم بم اور دیگر حربی اوزار سے زیادہ پُراثر قلم اور کیمرہ یعنی ’’صحافت‘‘ ہے۔ میڈیائی جنگ ایک ایسی جنگ ہوتی ہے، جس میں انسانی خون نہیں بہتا، لیکن قلم سے حقیقت کی بجائے دھوکا دہی کے آنسو نکلتے ہیں۔ اس جنگ میں لڑنے والے سپاہی قتل نہیں ہوتے، لیکن الفاظ میں حقیقت قتل ہوجاتی ہے۔ میڈیا ذہنوں کو بناتا ہے۔ تبصروں کو متاثر کرتا ہے اور رویوں کو ترتیب دیتا ہے۔ جن ممالک میں جمہور کی رائے کو جتنا ہی دبایا جائے گا، وہاں اتنا ہی میڈیا ریاستی اختیار سے متاثر ہوگا۔
شمالی کوریا کی بات ہوگئی۔ اَب ذرا افغانستان کو بھی بطورِ مثال لے لیتے ہیں۔ طالبان کے دوبارہ ظہور کے بعد افغانستان میں زنانہ تعلیم پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔ طالبات کا جامعات تک جانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی دنیا تشویش میں مبتلا ہے، مگر افغانستان کے اندر میڈیا شائد طالبان کے خوف ہی سے طالبان کا ایجنڈا پیش کرنے میں مصروف ہے اور مخالف آواز کو جگہ نہیں دی جارہی۔
ٹھیک اسی طرح پاکستان میں بھی ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر میڈیا کو مکمل طور پر قابو کرلیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں، حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور جمہور کی آواز کو کامل انداز میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایک علانیہ و غیر علانیہ سنسر شپ ہے، جو ہر حوالے سے فعال ہے۔ یک طرفہ میڈیائی پراپیگنڈے سے ’’بیانیہ‘‘ بنانے کی بے تُکی سی کوشش مسلسل ہورہی ہے۔ اس بیانیے میں جان ڈالنے کے لیے 9 مئی کے ذکر کو بطورِ ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے۔ یوں تسلسل سے عوام کو بتایا جارہا ہے کہ بہت ظلم ہوا تھا۔ واقعی ظلم ہوا تھا…… لیکن ’’ظالم‘‘ تو فٹافٹ پکڑے جاچکے ہیں۔ سول اور عسکری عدالتوں میں انصاف کا پیمانہ بھی اوپر نیچے ہورہا ہے۔ نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے…… لیکن اسی ایک مدے کو لے کر ’’امیج بلڈنگ‘‘ کی جو ناکام کوشش ہورہی ہے، وہ حیران کن ہے۔ کیوں کہ برق رفتار سوشل میڈیا کی موجودگی میں اب یک طرفہ بیانیوں کا دور گزر چکا ہے۔ برسرِ زمیں رونما ہوتے ظلم و جبر کے واقعات میں میڈیائی پراپیگنڈوں کا طلسم ٹوٹ رہا ہے۔ ریاستی ترجیحات اور ’’میڈیا ہینڈلنگ‘‘ ہی کا نتیجہ ہے کہ اب تک کئی ماہ گزرنے کے باوجود 9 مئی کا ذکر تو رہا ہے، مگر چند دنوں قبل جڑانوالہ میں مسیحی پاکستانیوں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کی خبر کو ’’پلے ڈاؤن‘‘ کیا گیا ہے۔ اسی طرح رانی پور (سندھ) میں ایک پیر کے جنسی ہوس کی شکار 9 سالہ فاطمہ کی بات بھی اب طاقِ نسیاں ہوچکی۔ ایسے میں کسی کو کس طرح یاد رہ سکتا ہے کہ شہرِ اقتدار اسلام آباد میں ایک سیشن جج کی بدمعاش بیوی نے اپنی کم سن ملازمہ پر اتنا تشدد کیا ہے کہ بے چاری ملازمہ اب تک ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
میڈیائی جنگ میں لفظوں کا قتل کب تک ہوتا رہے گا؟ ایجنڈا سیٹنگ، پراپیگنڈا اور میڈیا ہینڈلنگ سے کب تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کیا جاتا رہے گا؟ اور سب سے اہم سوال، آج کی مصنوعی ذہانت سے مزین سوشل میڈیا کی برق رفتاری میں ’’یک طرفہ بیانیے‘‘ کو کب تک فروغ دیا جاسکتا ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔