میٹرک امتحانات نتائج، چند تاثرات

گذشتہ دنوں جوں ہی نویں اور دسویں کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا، اس نے کئی والدین اور عام شہریوں کو چکرا کے رکھ دیا۔ ان نتائج کا ذمے دار کون ہے؟ اس پر سوشل میڈیا پر کئی حلقوں کی جانب سے بات ہورہی ہے۔
کسی بھی ادارے کی کامیابی اور ناکامی میں اندرونی حالات کے ساتھ بیرونی واقعات اور حالات کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
ہمارے سکولوں کے اندرونی حالات تو خیر شان دار ہی رہتے ہیں، تاہم حالیہ خراب نتائج میں کورونا، سیلابوں اور سیاسی عدمِ استحکام نے بھی اپنا کردار خوب نبھایا ہے۔ کورونا کے دوران میں سکول زیادہ تر بند رہے اور طلبہ و طالبات کو بغیر امتحانات لیے پاس کرایا گیا۔ یہ مجبوری تھی۔ کئی سٹوڈنٹس سے چند ایک پرچوں میں امتحان لے کر باقی مضامین میں اُن کی اہلیت کا قیاس اُن پرچوں میں کارکردگی پر کیا گیا، جس سے جہاں محنتی سٹوڈنٹس گھاٹے میں رہے، وہاں کئی کام چور اچھے مارکس کے ساتھ پاس ہوگئے۔
کورونا کے دوران میں جب سکولوں میں تدریس بند ہوئی، تو کوئی متبادل آن لائن نظام نہ ہونے کی وجہ سے آٹھویں یا ساتویں جماعتوں سمیت اگلی جماعتوں کے مضامین کی پڑھائی نہ ہوسکی۔ کورونا کے بعد ہمارے علاقوں میں سیلابوں کی آمد ہوئی۔ راستے کٹ گئے۔ سڑکیں بہہ گئیں اور ساتھ بچوں سمیت اساتذہ اور عام لوگ شدید ذہنی دباو کا شکار ہوگئے۔ ہم چوں کہ صرف پیٹ کے لوگ ہیں، اس لیے ذہنی امراض یا دباو کی طرف ہمارا دھیان کبھی نہیں جاتا۔ اس ذہبی دباو نے بھی دونوں یعنی اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی کارکردگی متاثر کی۔
گذشتہ کئی سالوں سے اس ملک میں ایک سیاسی چپقلش اور کھینچا تانی جاری ہے۔ لوگوں نے سیاسی بنیادوں پر کئی تعصبات اور اختلافات پال لیے ہیں، جن کی وجہ سے ذہنی خلفشار زیادہ ہونے لگا ہے۔ جہاں کئی اساتذہ اس سیاسی کشمکش سے متاثر رہے، وہی پہ گھروں میں بھی سیاسی مباحثے جاری رہے۔ طلبہ چوں کہ معاشرے کا تازہ طبقہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان مباحثوں اور مناظروں سے وہ بھی متاثر ہوئے بلکہ کئی نوخیز نوجوان تو باقاعدہ سیاسی پارٹیوں کے کارکن بن گئے۔ ان حالات نے بھی طلبہ کو متاثر کیا۔
کسی بھی طالب علم کی زندگی صرف سکول تک محدود نہیں ہوتی۔ وہ اس معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اوراسی ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ بچے کسی فکر کے حامل نہیں، مگر ایسا نہیں ہے ۔ یہ بچے اپنے ماحول سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایک اور مصیبت جس میں کئی طلبہ شکار ہیں، الیکٹرانک کھیل ہیں، جن میں مشہور "PUBG”ہے۔ یہ ایک نشہ آور اور تشدد آمیز کھیل ہے، جس نے کئی طلبہ کانہ صرف وقت ضائع کیا ہے، بلکہ ان کی ذہنی صلاحیت کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
٭ ناکام مانیٹرنگ سسٹم:۔ موجودہ نتائج بلاشبہ اس جائزہ نظام کے منھ پر ایک زور دار تھپڑ ہے، جس کو خیبر پختون خوا میں سال 2014ء کو شروع کیا گیا۔ اس نظام کا بنیادی ہدف پرائمری تعلیم تھا۔ اس کو "Independent Monitoring System” (IMU) کا نام دیا گیا اور اب باقاعدہ اس کو ایک اتھاریٹی میں ڈھال دیا گیا ہے۔ جب 2015ء کو اس نظام پر ایک انگریزی مضمون لکھا، تو اُس وقت ضلع سوات میں اس نظام کے سربراہ کے ساتھ باقاعدہ لڑائی ہوگئی، جب اُس نے ایک تعلیمی اجلاس میں مجھے نہ جانتے ہوئے میرے اور میری شناخت اور علاقے کا مذاق اُڑانا شروع کیا تھا۔
2014ء، 2015ء، 2016ء اور 2017ء میں جو بچے پرائمری سکولوں میں تھے، ظاہر ہیں اب وہ ہائی سکولوں میں اور اس سے آگے ہوں گے۔ اس مانٹیرنگ نظام کا زیادہ زور اساتذہ کی حاضری پر تھا۔ ان کو تدریس کے معیار سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ دوسری طرف وہ رپورٹنگ بھی اسی تعلیمی نظام کے افسروں کو کرتے تھے جن کی نگرانی کے لیے وہ مقرر تھے۔ لہٰذا ناکام رہا۔ وہ اس وقت ایک منصوبہ یعنی حکومتی پراجیکٹ تھا، جس کو برطانوی حکومت اپنے بین الاقوامی ترقی کے شعبے کے منصوبے کے تحت فنڈ کر رہی تھی۔ منصوبہ عموماً اس ملک میں اچھا کام کرتا ہے۔ کیوں کہ اس کے اہل کاروں کو ملازمتیں ہاتھ سے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت نے اس "Independent Monitoring Unit” کو 2019ء میں ایک اتھاریٹی کے تحت مستقل کردیا اور اب وہ چل چلاو سے کام لے رہے ہیں کہ نوکریاں پکی ہوگئیں۔ کوئی اور حکومت ہوسکتا ہے اس مانٹیرنگ کی ’’مانیٹرنگ‘‘ کے لیے ایک اور اتھاریٹی بناہی ڈالے کہ یہ ساری اتھاریٹیز آفسر شاہی کو نوازنے کے لیے ہوتی ہیں۔
اندرونِ خانہ یعنی سکول کی چار دیواری کے اندر کیا ہوتا ہے؟ (خصوصاً ہائی اور مڈل سکولوں میں) اس پر کیا بات کی جائے……!
پہلے تو ہمارے علاقے میں ہائی سکولوں میں اساتذہ کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس علاقے کے مرکزی سکول گورنمنٹ ہائی سکول بحرین میں پرنسپل ہے، نہ سائنس کے اساتذہ…… ہمارے مرکز کی یہ حالت ہے، تو مضافات کی کیا حالت ہوگی……! کسی بھی طرم خان (والد) نے ان مسائل پر بات نہیں کی۔ جب کسی نے ایسا نہیں کیا، تو کسی بھی والد کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان ہائی سکولوں میں موجود ناکافی اساتذہ کو اپنی تنقید کا ہدف بنائے۔ سب ’’پائپ‘‘ کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ ’’میرا لیڈر، تیرا لیڈر‘‘ کرتے نہیں تھکتے اور اپنے مستقبل کی کوئی کچھ فکر نہیں کرتا۔ یہی بچے تو مستقبل ہیں۔
گذشتہ دس سالوں میں یہ ہائی سکول، ہائیر سیکنڈری نہ بن سکا۔ یہ افسوس نہیں، لمحۂ فکریہ ہے۔ مَیں نے خود درجنوں مرتبہ مقامی نمایندوں سے اس سکول کو ہائیر سیکنڈری بنانے کی درخواستیں کی ہیں، مگر کیا کریں ہم تو پاگل ہیں!
مجھے لگتا نہیں بلکہ میرا تجزیہ اور مشاہدہ ہے کہ بحرین قصبے کے ساتھ عمداً ایسا سلوک کیا جارہا ہے، تاکہ ہمارا یہ مرکز، ہمارا یہ آنگو، یوں ہی پیچھے رہے۔ کسی نے 2002ء کے بعد یہاں گام کی گلیوں پر کام کیا ہے؟ کس نے بیوٹی فکیشن منصوبے کے تحت اس کی گلیوں اور بازار کو نکھارا ہے؟ جو سٹریٹ لائٹس لگائی تھیں، کیا اُن کو اس قصبے کی گلیوں میں نہیں لگایا جاسکتا تھا؟
سیاسی طور پر دوسرے علاقوں سے سیاسی عزائم رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اس قصبے اور اس وادی کے ووٹ تو بس دو خاندانوں کے ہیں…… اور ستم ظریفی دیکھیں کہ ان دو خاندانوں کو شکایت ہے کہ قصبے کے لوگ ان کو ووٹ نہیں ڈالتے۔ ایک الیکشن میں جب ایک مقامی امیدوار نے اپنے امیدوں سے بھی زیادہ یہاں ووٹ لیے، جو آنکھیں کھلنے کے لیے کافی تھا، مگر اس کا احساس اب بھی کوئی نہیں کہ ہم نے پارٹی سیاست ہر حال میں کرنی ہے۔ گویا یہ ہماری واحد شناخت بن چکی ہے۔
وہ دن کب آئے گا کہ ہمارے علاقے کے لوگ تعلیمی اداروں کی کمی، ان کی ناقص کارکردگی اور اساتذہ کی کمی پر احتجاج کریں گے اور سڑکیں بند کریں گے۔ کوئی جرگہ آج تک از خود تعلیم کے لیے نہیں بلایا گیا ۔ سب نے اپنے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ایسے جرگوں کی کوشش خوب کی ہے، جن کے مقاصد بھی بڑے مبہم ہوتے تھے۔
اگر حالات جوں کے توں رہتے ہیں، تو نوجوانوں کو اپنے حقوق کے لیے خاص کر تعلیمی مواقع اور اداروں کے لیے نکلنا ہوگا۔
ہم دن بہ دن تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ 10 سال پہلے ہمارے ہاں تین پرائیویٹ سکولوں میں کالج کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ اب صرف ایک میں ہیں۔ گذشتہ 25 سالوں میں پرائیویٹ سکولوں کی تعداد نہیں بڑھی۔ کوئی پرائیویٹ کالج بھی نہیں بنا۔ اب وہ چلبہ جن کے میٹرک میں مارکس کم ہیں، کہاں جائیں گے کہ ان کو یہاں سے دور کالجوں میں تو داخلہ نہیں ملے گا۔ میرے اپنے بحرین کے پڑھے لکھے جوانوں سے درخواست ہوگی کہ وہ ایک نجی کالج کا قیام فوراً کریں، تاکہ ان طلبہ کو اپنی تعلیم ترک نہ کرنا پڑے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے