کئی سال قبل کی بات ہے، ایک غیر ملکی اخبار (شارلی ایبڈو) نے گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے۔ نتیجتاً پاکستان بھر میں لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلے۔ اُن احتجاجیوں میں جذباتی یا جنونی لوگ بھی شامل تھے۔ لہٰذا جو چیز سامنے آئی توڑ ڈالی یا جلا ڈالی۔ تب مَیں پشاور میں ہوا کرتا تھا۔ دن بھر شہر کی سڑکوں پر انتشاریوں کا قبضہ رہا۔ رات گئے معلوم ہوا کہ احتجاج کے قریب سے گزرتے ہوئے ہمارے ایک ساتھی (اویس) کو بھی نامعلوم گولی لگی اور خیبر تدریسی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ بعد از مغرب بغرضِ تیمارداری ہسپتال پہنچا، تو اویس خاموش پڑے تھے۔ ڈاکٹر اور ساتھی ساتھ ہی کھڑے تھے۔ علیک سلیک ہوئی، ضروری پوچھ تاچھ اور پھر گپ شپ ہوئی، تاکہ اویس زخموں کا درد کچھ وقت کے لیے بھول جائے۔ ابھی بات چیت ہورہی تھی کہ اویس کا ایک رشتے دار نمودار ہوا۔ آتے ہی اویس کے ماتھے کو چھوم کر کہا: ’’آپ غازی ہیں!‘‘
کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
اس کے یہ الفاظ میرے لیے حیران کن تھے۔ خیر وہ چلا گیا، تو اویس کو کہا: ’’یار! کیسا غازی…… کیا تم کشمیر یا فلسطین گئے تھے…… انڈین فوج یا اسرائیلی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے زخمی ہوئے؟‘‘ میرے ان گستاخانہ سوالات پر میرا دوست بھی مسکرانے لگا۔
خیر، چند دنوں بعد اویس جو اپنے ہی کسی مسلمان بھائی کی گولی کا نشانہ بنا تھا، رو بہ صحت ہوا اور گھر منتقل ہوگیا۔ بعد میں کافروں کے دیس منتقل ہوگیا اور اب وہاں خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔
اُس احتجاج میں اویس کے علاوہ دیگر مسلمان بھی زخمی ہوئے تھے۔ کچھ تو جان سے بھی گئے تھے۔ پشاور میں ایک مشہور کورین ٹرانسپورٹ کمپنی کے اڈے پر بلوائیوں نے حملہ کرکے کئی بسوں کو جلایا تھا۔ راستے میں لوگوں کی نجی گاڑیوں اور دُکانوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ اس طرح صرف پشاور ہی نہیں بلکہ ملک کے باقی حصوں میں بھی ہوا تھا، مگر آج تک کسی کو سزا نہ مل سکی۔
قارئین! یہ صرف ایک مثال نہیں، اس طرح کے ہر واقعے میں ہم بحیثیتِ قوم وحشی ہوجاتے ہیں۔ آو دیکھتے ہیں نہ تاو…… قانون کا پاس رکھتے ہیں، نہ اخلاقیات اور احکامِ دین کا۔ بس کسی نے مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اعلان کیا، یا کسی نے کسی پر توہین کا الزام لگایا اور ہم اُس پر چڑھ دوڑے۔
سالوں پہلے پنجاب کے اندر مسیحی جوڑے کا زندہ جلانے کا کیس ہو، یا چند سال قبل مرادن یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں مشال طالب علم کا وحشیانہ قتل…… ہماری ریاست اور حکومت نے کسی بھی سانحے کے بعد کوئی واضح لائحہ عمل طے کیا اور نہ کچھ نافذ ہی کیا۔ مذمتی بیانات تک محدور ریاست میں عدمِ برداشت کا پیمانہ اتنا لب ریز ہوچکا ہے کہ چند مہینے قبل مردان میں ایک عامل یا عالم مولانا نگار کو بھی ہجوم نے توہین کے الزام میں وحشیانہ طریقے سے قتل کیا جب کہ تحقیقات سے یہ پتا چلا ہے کہ مولانا نگار نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ بے گناہ تھا۔ اس لے اس کے خاندان کو چند لاکھ روپے دے کر قاتلوں نے صلح بھی کرلی۔
یہ تمام باتیں مجھے اس لیے یاد آئیں کہ گذشتہ بدھ کو فیصل آباد کے تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی پاکستانیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ انتہائی افسوس ناک اور شرم ناک عمل ہے۔ ہم سب کو بحیثیتِ قوم، مسیحی بھائیوں سے معافی مانگنی چاہیے اور ریاست کو سرکاری سوگ اُس وقت تک منانا چاہیے، جب تک اس واقعے میں ملوث ملزمان کو سزا نہیں دی جاتی۔
یہ کوئی دلیل نہیں کہ کسی نے مسلمانوں کے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی، تو مسلمانوں کا ردِعمل فطری تھا۔ یہ دلیل ہی بھونڈی ہے۔ کیوں کہ مذکورہ واقعے میں تو یہ واضح نظر آرہا ہے کہ یہ ایک سازش تھی۔ کیوں کہ وہاں مقامی آبادی میں مسیحی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ مقامی مسلمان اس بات کے گواہ ہیں کہ یہاں کی مسیحی برادری اس قسم کی نہیں۔ پھر اہم اور عقلی سوال یہ ہے کہ کوئی پاگل ہی ہوگا، جو مسلمانوں کے مقدس اوراق کی بے حرمتی کرے گا…… اور بطورِ ثبوت اپنا نام، تصویر، فون نمبر اور پتا بھی چھوڑے گا۔
مجھے جڑانوالہ کے سیاسی، مذہبی اور دعوتی پارٹیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے شدید گلہ ہے۔ اگر یہ لوگ سارے نکلتے، تو چند درجن بلوائیوں کو یہ ہمت نہ ہوتی کہ چرچ جلاتے اور اُن کے خوف سے مسیحی مرد، عورت اور بچے گنے کے کھیتوں میں رات گزارنے پر مجبور نہ ہوتے۔
نبیِ رحمت اور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں یہ کیسے بھیڑیے پیدا ہوگئے ہیں، جنھوں نے پوری انسانیت، پُرامن دینِ اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جاتے جاتے سنٹر فار سوشل جسٹس کی مرتب کردہ رپورٹ سے کچھ اعداد و شمار بھی رقم کرتا چلوں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق توہینِ مذہب کے مقدمات میں 1987ء سے 2022ء تک ٹوٹل 2120 افراد پر توہین کے مقدمات درج ہوئے، جن میں 75 فی صد صرف صوبہ پنجاب میں درج ہوئے۔ اس کے بعد 16 اگست تک مزید 198 مقدمات درج ہوئے، جن میں 85 فی صد ملزمان مسلمان، 9 فی صد احمدی جب کہ 4.4 فی صد مسیحی شامل ہیں۔
ریاست اگر اب جڑانوالہ واقعے کے ملزمان کا 9 مئی کی طرز پر بندوبست نہیں کرتی، تو یہ بدقسمتی ہوگی۔ کیوں کہ توہینِ مذہب، توہینِ ریاست سے بڑا جرم ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔