سوامی وویک آنند کی کتاب ’’کرما یوگا‘‘ کا مختصر جائزہ

یہاں لفظ کرما کا مطلب عمل (Action) ہے (البتہ کرما کے ایک اور معنی مکافاتِ عمل بھی ہیں)، تمام چھوٹے اور بڑے عمل، ہماری سوچ، بولنا اور عمل کرنا سب ’’کرما‘‘ میں شامل ہوتا ہے۔
کتاب ’’کرما یوگا‘‘ میں سوامی وویک آنند صاحب نے کام کو اچھے اور بہتر انداز میں کرنے کا فلسفہ اور راز شیئر کیا ہے۔ مجھے اس کتاب میں کچھ باتیں بہت پسند آئیں، تو سوچا کہ وہ قوم، جسے اپنا کام ٹھیک سے کرنا نہیں آتا، چاہے وہ ہم عام عوام ہوں یا ہمارے حکومتی ادارے، لیکن ہم حکومتی اداروں کی بات نہیں کریں گے، اس بار ہم اپنے کرما کا جائزہ لیں گے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
اگر آپ اپنے روزمرہ کے کام سے تنگ ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ زندگی کا مقصد پلیژر اور خوشی کا حصول ہے، تو ویویک صاحب آپ کو اس کے برعکس جواب دیں گے۔ مَیں اس کتاب میں سے چند باتوں پر روشنی ڈالوں گی جو مجھے پسند آئیں۔
وویک کہتے ہیں کہ کائنات میں ہر شے ایک ہی چیز سے منسلک ہے، زندگی میں ہر بات ایک ہی چیز پر رُکتی ہے اور وہ…… کرما (Work/ Action) ہے۔
یوگا صرف آسن بنا کر سانس لینے کے عمل کو نہیں کہتے، سوامی صاحب کہتے ہیں کہ یوگا سے مراد ہے کہ کسی بھی کام کو مکمل مہارت اور ہوشیاری سے انجام دینا، اسے کرما یوگا کہتے ہیں، اور اُس ماہر انسان کو کرما یوگی۔ سوامی صاحب کہتے ہیں کہ ہماری قوم (اُن کا اشارہ ہندو قوم کی طرف ہے، لیکن ہم بھی کام چوری میں اُن سے مختلف نہیں) نظریات اور باتوں کے بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے، جب کہ کائنات میں ہر چیز عمل کے تابع ہے۔
٭ پہلا پوائنٹ:۔ ویویک صاحب کہتے ہیں کہ زندگی کا مقصد خوشی کا حصول نہیں۔ اس کا مقصد علم (Knowledge) حاصل کرنا ہے۔ البتہ ’’خوشی‘‘،’’غم‘‘، ’’اچھائی‘‘، ’’برائی‘‘ یہ آپ کے استاد ہیں جو آپ کی علم و دانش حاصل کرنے کے سفر میں مدد کرتے ہیں۔ یہ چار استاد آپ کی منزل نہیں، منزلِ علم ہے۔ یہ استاد مل جل کر آپ کا ’’کردار‘‘ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ سارے تجربات مل کر آپ کے دماغ پر اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔
کچھ جگہوں پر خوشی اچھا استاد ہوتی ہے، تو کچھ جگوں پر انسان غم میں سیکھتا ہے۔ کبھی برائی اچھا سبق دیتی ہے، تو کبھی اچھائی…… لیکن وویک صاحب کے مشاہدے کے مطابق غم، غربت اور مصیبت سب سے تیز استاد ہوتے ہیں…… یہ زیادہ سکھا جاتے ہیں۔
وویک لاعلمی (Ignorance) کو انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ اور علم کو مقصد بتاتے ہیں۔ مَیں اُن کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ کیوں کہ میرے پاس عموماً لوگ اپنے چہرے کا مکھوٹا اُتار کر اپنی حقیقی کہانی شیئر کرنے آتے ہیں اور اُن کے درد اور تکلیف کے پیچھے خاندانوں میں صدیوں سے چل رہی اور ان کی اپنی لاعلمی ہوتی ہے ۔ لاعلمی، زندگیاں برباد کردیتی ہے۔ لاعلمی اور حقیقت کو نہ دیکھ پانا ہی تکالیف کو جنم دیتا ہے۔
٭ دوسرا پوائنٹ:۔ کام تو سب کرتے ہیں، لیکن کم توانائی لگا کر اچھا کام کرنے کی سائنس اور فلسفہ آپ کو اس کتاب میں پڑھنے کو مل سکتا ہے…… لیکن وویک صاحب کی ایک بات جو مجھے پسند آئی، وہ یہ تھی کہ وہ اِس فلسفہ کو ایک ہی دن میں سیکھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ سوامی صاحب کہتے ہیں کہ دنیا میں چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی قوت اِرادی (Will Power) اتنی مضبوط ہوتی ہے، اُن کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ اُنھیں خود پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اپنی قوتِ ارادی سے سلطنت کے تختے پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ مقناطیس کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کی جانب پوری کائنات پُرکشش ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، گوتم بدھا اور ان جیسی کئی شخصیات کا شمار ہوتا ہے۔
لیکن زیادہ تر لوگ ہماری طرح ہیں…… کم زور قوتِ ارادی کے مالک۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خود کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ در حقیقت ہمیں کرما یوگا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
٭ کرما یوگا کیا ہے اور اسے کیسے سیکھا جائے؟:۔ وہ تین باتیں جس پر عمل کرکے آپ کرما یوگا کی پریکٹس کو سیکھ سکتے ہیں، وہ شاید سننے میں آسان لگیں…… لیکن اُنھیں کرنے کے لیے وقت، نظم وضبط اور پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭ ہم ورا ذہن کا حصول (Evenness of Mind):۔ یوگا کا مطلب ہی ذہن کو ہم وار بنانے کی پریکٹس کرنے کا ہے۔ کامیابی پر خوشی سے جھولنا اور ناکامی پر رونا آپ کے ذہن کو ہم وار نہیں ہونے دیتا۔ آپ کا موڈ باہری چیزوں پر مبنی ہے اور جب نتائج آپ کی مرضی کے مطابق نہ ہوں، تو ذہن اپنا توازن کھو دیتا ہے۔ پھر ہماری تکالیف دگنی ہوجاتی ہیں۔ کامیابی اور ناکامی کے درمیان توازن رکھنا ضروری ہے۔ دونوں کو اُستاد سمجھ کر سیکھنا ضروری ہے۔ یہ دونوں آپ کی منزل نہیں بلکہ استاد ہیں، جو آپ کو زندگی اور دنیا کے متعلق علم دیتے ہیں۔
٭ عمل/ کام میں مہارت (Skill In Action):۔ جب ذہن ہم وار ہوگا، تو آپ خوشی غم کے جھونکوں پر پریشان نہیں ہوں گے۔ کیا میرا فیصلہ صحیح ہوگا یا غلط…… کیا میں ہار جاؤں گا یا جیتوں گا…… کیا مجھے پرموشن ملے گا…… کیا مَیں فُلاں کام کر پاؤں گا…… وغیرہ کی جھنجھٹ سے آزاد ہوں گے، تو آپ کی کارکردگی بہترین ہوگی۔ جب آپ نتائج کی سوچوں سے آزاد ہوں گے، تب آپ کے کام میں مہارت آنا ممکن ہے۔ وہ اضطراب (Anxiety) جس کا تعلق اس سوچ سے ہے کہ کیا مَیں فُلاں چیز حاصل کرپاؤں گا یا نہیں…… وہ آپ کی توانائی کھاتا ہے، جس سے آپ کے کام میں مہارت آنا ممکن نہیں۔ سوچیں، اگر آئن اسٹائن نے کبھی یہ سوچا ہوتا کہ پتا نہیں میں فزکس میں کوئی اعلا کارکردگی دکھا پاؤں گا یا نہیں، کیا لوگ مجھے پسند کریں گے، میری تعریفیں کریں گے یا نہیں، کیا مجھے نوبل انعام ملے گا یا نہیں…… تو شاید آئن اسٹائن انزائٹی میں کبھی اپنا کام مہارت کے ساتھ نہیں کرپاتا۔
جب آپ ان تمام آنے جانے والے جذبات سے بالاتر ہوجاتے ہیں اور نتائج کے غم سے آزاد، تو پھر آپ کے کام میں مہارت آتی ہے اور اُسی مہارت کو کرما یوگا کہتے ہیں۔ جب آپ کام کو عبادت کی طرح کرتے ہیں۔ آپ کا کام آپ کی عبادت ہوتا ہے، خواہ پسند ہو یا پسند نہ ہو، کرنے کا دل ہو یا نہ ہو، لیکن آپ نے ہر حال میں اُسے کرنا ہے۔ کمپیوٹر سائنس دان ’’کال نیوپورٹ‘‘ نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے (جس کا ریویو مَیں دے چکی ہوں) کہ کس طرح آہستگی سے اپنے کام پر مہارت حاصل کرنا آپ کے وقتی جذباتی پسندیدہ کام پر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے۔
٭ لاتعلقی (Detachment):۔ لاتعلقی ہی وہ ہنر ہے جو آپ کو کرما یوگی بناتا ہے، اور یہی حاصل کرنا سب سے مشکل ہے۔ بھگود گیتا میں کرشنا کہتا ہے کہ ’’کام کرو، لیکن اس کا پھل ملنے کی امید نہ کرو۔‘‘ مزید کہتا ہے کہ ’’تمھارے پاس محض عمل کرنے کا اختیار ہے، نتیجہ تمھارے بس میں نہیں۔ اور پھر سب سے اہم بات کہ مقاصد سے حاصل ہونے والے نتیجے کو سوچ کر تم موٹیویٹ نہ ہو، کیوں کہ یوں تم زیادہ عرصہ چل نہیں پاؤ گے۔‘‘ مزید کہتا ہے کہ اور ’’نہ غیرفعالی (Inaction) سے لگاؤ رکھو۔ کیوں کہ فعال ضروری ہے۔‘‘
وویک آنند اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لاتعلقی پر عبور تب آتا ہے، جب آپ منزل سے زیادہ ہنر کو سنوارنے پر توجہ دیتے ہیں۔ جب آپ مثبت نتیجہ ملنے کی لالچ سے آزاد ہوجاتے ہیں…… اور یہ تب ممکن ہے جب آپ اپنی ذات (Ego) کو اپنے مقصد/ کام سے الگ رکھتے ہیں۔
’’راین ہالیڈے‘‘ کی کتاب ’’اَنا دشمن ہے‘‘ (Ego is the Enemy) میں اُنھوں نے امریکہ کی تاریخ میں موجود کئی ایسے لوگوں کا ذکر کیا ہے، جنھوں نے اپنا کام صرف اس لیے کیا کہ وہ اسے اپنا دھرما (Duty) سمجھتے تھے۔ اُنھیں کسی ایوارڈ کی کوئی امید نہیں تھی۔ زیادہ تر لوگ بنا کسی لالچ یا مقصد کے کام نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں ماہر نہیں۔ کیوں کہ نتائج سے ملنے والا لالچ آپ کی انرجی کھا جاتا ہے۔ ذرا سا حالات آپ کے حق میں برے ہونے لگیں، تو آپ موٹیویشن کھو دیتے ہیں۔ ایسا وویک آنند اپنی کتاب میں کہتے ہیں۔
انزائٹی، لالچ اور منفی سوچوں سے جھونجھ رہے ذہنوں کے لیے کرما یوگا ایک ناممکن خیال ہوسکتا ہے۔ ہم وار ذہن کے ساتھ اَنا، لگاو اور لالچ سے بالاتر ہوکر کام کرنا یقینا آسان نہیں۔
کرما یوگا ایک پریکٹس ہے، جو بہت وقت، نظم و ضبط اور مستقل مزاجی چاہتی ہے۔ خواہ آپ کے دنیاوی گولز ہوں یا روحانی…… دونوں میں اس یوگا پر عبور حاصل کرنا آسان نہیں۔ یہ ایک سفر ہے جسے طے کرنے سے آپ کی ذہنی اذیت کم اور آپ کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے