ہمارے گھر جس زمین پر سڑک کے کنارے بنے ہیں، یہ ہمارے پرکھوں کی ملکیت تھی اور سامنے والے پہاڑ کے دامن تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر میانگل عبدالودود بادشاہِ سوات نے اس کے درمیان سے سڑک گزاری۔ اس کی وجہ سے زمین کے دو ٹکڑے ہوگئے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
ہم سیدو شریف میں رہتے تھے۔ گاؤں کبھی کبھی آنا نصیب ہوتا، تو میرے چچا نے بغیر میرے والد سے پوچھے پہاڑی کے دامن والی زمین اسماعیل نامی دُکان دار کے ہاتھ صرف 25 روپے میں بیچ ڈالی۔ میرے والد صاحب نے جب اُن کی سرزنش کی، تو وہ ’’ہوں ہاں‘‘ اور اپنا مشہور تکیہ کلام ’’پریدہ غوچے‘‘ دہرا کر بات ہی ختم کردی۔ اب اس لفظ کے کئی معنی اور مطالب ہیں۔
بہر کیف، اُس زمین کے مشرقی کنارے پر ایک قبر واقع تھی…… بہت لمبی اور چوڑی، جیسے اکثر قدیم قبر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اتنی قدیم نہیں لگتی تھی۔ دوسرے مزاروں کی طرح یہ قبر بھی ایک بیماری کے لیے مخصوص تھی، جسے پشتو میں ’’باد‘‘ کہتے ہیں۔ شاید ’’ریومیٹکس ارتھرائٹس‘‘ اور اس قبیل کی دوسری تکالیف۔
اکثر مریض چارپائیوں پر لائے جاتے۔دن رات یہاں پڑے رہتے اور لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ پھر مریض اُٹھ کر اپنے پاؤں پر واپس چل دیتے۔
اس قبر پر پلوسہ کا ایک اتنا ہی قدیم درخت تھا، جس کی شاخیں 50، 60 فٹ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ کوئی اس سے شاخ توڑنے کا بھی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ صاحبِ مزار ’’کلال بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ اس قبر کا اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ معزز گھرانوں کی خواتین بھی اس کی لیپائی میں حصہ لیتی تھیں۔ یہ شاید واحد قبر تھی جس کی باقاعدہ گارا اور بھوسا ملا کر پلستر کیا جاتا تھا اور ہر محرم کی دسویں نہایت اہتمام سے یہ ثواب کا کام سمجھ کر کیا جاتا تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ مسجدِ ہلال کے ایک مولوی صاحب نے سردیوں میں مسجد کے استعمال کے لیے اس کا ایک حصہ کٹوا دیا…… جس سے قبر کو شدید نقصان پہنچا، بلکہ یہ مسمار ہوگئی۔ اُس مولوی صاحب نے ویسے پتھر اوپر تلے رکھ کر قبر کی صورت کسی طرح برقرار رکھی، مگر اونچائی آدھی بھی نہیں رہی۔
ایک دفعہ مشہور لکھاری (کئی کتب کے مصنف) فضل محمود روخان مجھ فقیر سے ملنے آئے، تو اُنھوں نے کلال بابا کی قبر کے بارے میں پوچھا۔ مَیں نے اُن کو نشان دہی کی، تو کہنے لگے کہ کچھ عرصہ پہلے وہ اور ہمایوں مسعود صاحب صرف اسی مزار پر حاضر ہوئے تھے، تو ہمایوں صاحب نے اُن کو بتایا کہ یہ اُن کے جدِ امجد ہیں اور اُن کے خاندان کے دوسرے لوگ اسی گاؤں کے ’’سیرئی چم‘‘ میں رہتے ہیں۔
آج کل وہ قبر منہدم ہونے کے قریب ہے۔ اس کی پائنتی میرے والد کی حافظِ قرآن خالہ کی قبرہے، جس کی ہم دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ان قبروں کو محفوظ رکھے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔