پاکستان کے چاروں صوبوں اور مرکز کی منتخب اسمبلیاں ختم ہوچکی ہیں۔ مرکز میں نگرانوں نے عنانِ حکومت سنبھال لی ہے۔ صوبوں میں بھی نگرانوں کے تقرر کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ آئین کے مطابق نگران حکم رانوں نے 90 روز تک ملکی اور صوبائی معاملات چلانے کے ساتھ ساتھ نئے الیکشن کرانے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہر طرح سے مدد کرنا اور مطلوبہ سہولیات بہم پہنچانا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
انتخابات مقررہ 90 روز کے اندر ہوپاتے ہیں یا نہیں…… یہ ایک الگ بحث ہے۔ امکانِ غالب یہی ہے کہ نگران سیٹ اَپ کم از کم چھے سے سات ماہ تک اپنے فرائض سرانجام دے گا۔ یہ مدت زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے جس کا تعلق خالصتاً ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ ملک میں ہونے والی نئی مردم شماری سے بھی وابستہ ہے۔ اگر نئی مردم شماری پر الیکشن کروائے جاتے ہیں، تو الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں کرنا پڑیں گی…… جس کے لیے چار ماہ کی مدت درکار ہے۔ یوں عام انتخابات کا انعقاد مارچ 2024ء میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اگر موجودہ انتخابی قواعد و ضوابط کو دیکھا جائے، تو ان میں ایک بڑا سقم نظر آتا ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی شہری جو الیکشن لڑنے کا اہل ہو، وہ جتنی نشستوں پر چاہے الیکشن لڑسکتا ہے، حتیٰ کہ وہ چاہے، تو قومی یا صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر بیک وقت انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا سنگین مذاق ہے، جو غالباً پاکستان ہی میں ممکن ہے۔ یہاں یہ پریکٹس بھی عام ہے کہ پارٹی سربراہان یا بڑے لیڈرز دو سے پانچ نشستوں پر الیکشن لڑتے ہیں۔ ایک سے زائد سیٹوں پر کامیابی کی صورت میں کوئی ایک سیٹ اپنے پاس رکھتے ہیں اور باقی نشستیں چھوڑ دیتے ہیں، جن پر ضمنی الیکشن کروایا جاتا ہے۔ یوں ضمنی الیکشن کی مد میں ملکی خزانے پر کروڑوں روپے کا اضافی بوجھ پڑجاتا ہے۔ انتخابی اصلاحات کرکے اس اضافی بوجھ سے بچا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے 16 اکتوبر 2021ء کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے سات حلقوں سے الیکشن لڑا اور ان میں سے چھے حلقوں میں وہ کامیاب قرار پائے تھے۔ عمران خان نے جب ان سات نشستوں پر الیکشن لڑا، تو اُس وقت وہ پہلے سے ہی قومی اسمبلی کے ممبر تھے اور یوں دیکھا جائے، تو اُنھیں بظاہر ان سات میں سے کسی ایک نشست پر بھی الیکشن لڑنے کی ضرورت نہیں تھی، مگر عمران خان ضرورت کے تحت نہیں، بلکہ اپنی ذاتی مقبولیت کو ثابت کرنا چاہتے تھے، جس میں وہ کامیاب رہے۔ اُنھوں نے چھے نشستوں پر کامیاب ہوکر اپنا ہی سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔ قبل ازیں 2018ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کی چھوڑی ہوئی چار نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے تھے۔
عمران خان نے جن چھے نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اُن میں سے کوئی ایک نشست بھی اس قابل نہ سمجھی گئی کہ جسے وہ اپنے پاس رکھ کر اس کا حلف اٹھالیتے…… حتیٰ کہ اپنی سابقہ نشست پر اہل ہونے کے باوجود بھی اُنھوں نے اسمبلی کا رُخ نہیں کیا۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جس وقت عمران خان نے ان سات نشستوں پر ضمنی الیکشن لڑا، اُس وقت ان کی پارٹی کے ایم این ایز نے اپنی نشستوں سے استعفے دے رکھے تھے۔ عمران خان نے اسمبلی میں نہ جانے کے لیے یہ الیکشن لڑا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان جو کہ پہلے ہی معاشی مشکلات سے دوچار ہے، اس کے خزانے کو یوں بے دریغ اور بے دردی سے خرچ کروا کر عمران خان نے وطن کی کون سی خدمت کی تھی؟
ان چھے نشستوں پر الیکشن کمیشن نے قریباً پچیس کروڑ روپے خرچ کیے تھے، جب کہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے بھی کروڑوں روپے فی کس کے حساب سے خرچ ہوئے۔
غور کریں کہ کیا سیلاب میں ڈوبا ہوا اور مالی مشکلات سے دوچار پاکستان اس فضول پریکٹس کا متحمل ہو سکتا تھا؟
عمران خان کے اس رویے اور اقدام نے سنجیدگی سے یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عوامی نمایندگی ایکٹ میں ترمیم کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اب الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو لامحدود سیٹوں پر انتخاب لڑنے کی سہولت ختم کر دینی چاہیے۔ کیوں کہ اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابی عمل کو ایک تماشا اور مذاق بنا دیا گیا ہے۔ ایسا کرکے قوم کے ٹیکس کے پیسوں کا بے دردی سے ضیاع ہی نہیں کیا جاتا، بلکہ لوگوں کا قیمتی وقت بھی برباد کیا جاتا ہے۔ جب امیدوار نے صرف ایک نشست رکھنی ہے، تو بہتر ہے کہ اسے ایک ہی نشست پر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے، تاکہ ضمنی انتخابات میں قوم کا وقت اور پیسا برباد نہ ہو۔ اس کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔
بھارت میں بھی یہ قانون موجود تھا کہ کوئی امیدوار لامحدود حلقوں سے انتخاب لڑ سکتا تھا، مگر 1996ء میں بھارت میں عوامی نمایندگی ایکٹ میں ترمیم کرکے لامحدود کو صرف دو نشستوں تک محدود کر دیا گیا اور گذشتہ 12 سال سے اس پر بھی اعتراض اٹھایا جا رہا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن اور لا کمیشن کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ امیدوار کو صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ اگر دو نشستوں والا موجودہ قانون برقرار رہتا ہے، تو خالی کی جانے والی نشست پر ضمنی انتخابات کا تمام خرچہ نشست خالی کرنے والے امیدوار کو ادا کرنا چاہیے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2017ء میں پارلیمنٹ کو امیدوار کے دو سے زائد حلقوں پر الیکشن نہ لڑنے کی ترمیم تجویز کی تھی، جسے منظور نہیں کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اگر یہ تجویز منظور کرلی جاتی ہے، تو الیکشن کمیشن اب بھی اس تجویز کی حمایت کرے گا۔
پاکستان میں یقینا اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ اگر سٹیک ہولڈرز ایک امیدوار کے صرف ایک نشست پر انتخاب لڑنے پر رضامند نہیں ہوتے، تو ایک امیدوار کو زیادہ سے زیادہ دو نشستوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔ اگر وہ دونوں نشستیں جیت جائے، تو چھوڑی جانے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب کا خرچہ سیٹ چھوڑنے والا امیدوار ادا کرے۔
ایسی صورت میں انتخابات کو محض کھیل تماشا اور مذاق بنانے کے رجحان میں نہ صرف کمی آئے گی، بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان سے بچایا جا سکے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔