ڈاکٹر طارق سلیم مروت کی یاد میں

پیدایش:۔ 28 مئی 1961ء۔
انتقال:۔ 31مئی 2021ء۔
ڈاکٹر طارق سلیم مروت، ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے اور مینا خیل (لکی مروت) کی جان تھے۔ اللہ نے اُن کے دل و دماغ میں کتابوں کا عشق بھر دیا تھا۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اُن کا گھر اُن کی زمینوں سے آنے والی آمدنی پر چلتا ہے اور اُنھیں اُن کی زمینوں پر ایستادہ کسی موبائل نیٹ ورک کے لگے ہوئے ٹاؤر کا کرایہ بھی آتا ہے اور وہ اپنے علاقے کے ہیلتھ آفیسر ہیں اور اُن کی تنخواہ کتابیں خریدنے اور اُنھیں طریقے سلیقے سے محفوظ رکھنے پر ہی صرف ہوتی ہے۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
اُنھوں نے اپنا مہمان خانہ کتابوں اور کتابوں ہی سے متعلقہ دوستوں کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ میرے ساتھ اُن کی دوستی کی وجہ میری ترجمہ کردہ کتاب: ’’پرنسس‘‘ (جین ساسن) بنی۔ اُنھوں نے یہ کتاب براہِ راست مجھ سے منگوائی اور یہ بھی کَہ دیا کہ میں ہر نئی شائع ہونے والی کتاب انہیں ’’وی پی‘‘ کر دیا کروں۔ اُن کا پتا بہت مختصر تھا: ’’ڈاکٹر طارق سلیم مروت، مینا خیل، لکی مروت (K.P.K.)‘‘ ڈاک اُنھیں فوری طور پر مل جاتی تھی۔ پورا ڈاک خانہ اُن کی عزت کرتا تھا۔ اُن کا حلقۂ احباب بڑا وسیع تھا۔ مہمان نوازی کی تو انتہا کر دیتے تھے۔ میری کتابوں کے اس قدر عاشق ہوئے کہ مَیں نے اُن کے لیے عیدالاضحی کی چھٹیاں مختص کر دیں۔ ہر سال عید پر عید کی صبح اُن کے گھر پہنچ جاتا۔ لاہور بادامی باغ (لاری اڈا) سے لکی مروت کے لیے بس رات 10 بجے روانہ ہوتی تھی۔ مجھے بس کا نمبر، ڈرائیور/ کلینر کا فون نمبر بتاتے۔ کبھی کبھی میرا کرایہ بھی ایڈوانس ادا کر دیتے۔
سارے راستے فون کر کرکے مجھ سے پوچھتے رہتے کہ بس کہاں پہنچی؟ گھر پہنچنے پر مجھ سے بڑے پُرجوش انداز میں گلے لگا کر ملتے۔ عید پر ملاقات کے لیے آنے والوں سے میرا تعارف کرواتے۔ اپنے خاندانی ملازم ’’چاچو‘‘ کو میرا خیال رکھنے کی تاکید کرتے۔ مجھے لائبریری کے ساتھ والے کمرے میں ٹھہرایا جاتا، جس کے ساتھ اٹیچڈ باتھ بھی تھا۔ وہاں میرے لیے ضرورت کا ہر سامان میرے آنے سے پہلے رکھ دیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے شاعری کی ایک کتاب ’’راز‘‘ لکھی اور نثر میں اُن کی ایک کتاب ’’بچہ سقہ‘‘ آئی جو لاہور سے آغا امیر حسین صاحب نے ماہنامہ ’’سپوتنک‘‘ میں شائع کی۔
یادیں اور باتیں تو بہت سی ہیں۔ ’’کیا بھولوں کیا یاد کروں!‘‘ والا معاملہ اس وقت درپیش ہے۔ اپنی بیماری کے دوران میں وہ پشاور آتے جاتے رہے، مگر مجھے اپنی بیماری کی تفصیل کبھی نہیں بتائی۔ مَیں نے 2011ء کا وہ تاریخی لمحہ لکی مروت میں اُن کے گھر گزرا جب سب کچھ یوں ہوگیا تھا۔ گیارہ بج کر گیارہ منٹ، گیارہ سیکنڈ، گیارہواں مہینا، نیو میلینیم کا گیارہواں سال…… ڈاکٹر صاحب پر ایک تفصیلی مضمون لکھنا مجھ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ ابھی اپنے اُمڈتے ہوئے جذبات پر کنٹرول کرتے ہوئے اسی قدر لکھ پایا ہوں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے