پچھلے دنوں میری بیٹی کی ناک کا آپریشن تھا۔ ہم اُسے سیدو شریف میں ایک اچھے ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب سے مَیں نے کہا کہ پرائیویٹ آپریشن کرانا ہے۔ اُس کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ آپریشن کے لیے 25 ہزار روپیہ ادا کرنا پڑے گا۔ مَیں راضی ہوگیا…… لیکن ڈاکٹر صاحب بضد تھے کہ صحت کارڈ ہی کے ذریعے آپریشن کیا جائے۔ مَیں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میرا ادارہ مجھے صحت انشورنس دیتا ہے۔ مجھے مسئلہ نہیں۔
نیاز احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/niaz-ahmad-khan/
دراصل صحت کارڈ کے ذریعے آپریشن پر مجھے کچھ تحفظات تھے کہ مریض کی دیکھ بھال درست نہیں کی جاتی۔ حکومت سے ہسپتال انتظامیہ زیادہ رقم چارج کرتی ہے، وعلی ہذا القیاس۔ بہرحال ڈاکٹر نے مجھے قائل کر دیا کہ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ بس مجھے صرف اپنا شناختی کارڈ اور بچی کا شناختی کارڈ یا فارم ب لا نا دینا تھا اور بس۔
ہسپتال میں صحت کارڈ کے تین ڈسک تھے۔ وہاں گیا، تو اُن میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ وہ خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ دستاویزات تیار ہوئیں۔ بچی کا آپریشن ہوگیا۔ دوسرے روز ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور مریض کو گھر جانے کی اجازت دی۔ مجھے کہا گیا کہ صحت کارڈ والے کاؤنٹر سے کاغذات پر دستخط کرکے مریض کو لے جائیں۔ مَیں وہاں گیا، تو نوجوان نے پوچھا کہ کیا آپ سے کسی نے رقم لی ہے؟ مَیں نے کہا، ’’نہیں……!‘‘ پوچھا، ادویہ، انجکشن وغیرہ کی مد میں کسی نے رقم لی؟ مَیں نے کہا، ’’بالکل نہیں!‘‘ اُس نے پوچھا وارڈ اور بیڈ درست تھے؟ مَیں نے کہا، ’’بالکل صاف…… سہولت کے لیے نرس ہر وقت دست یاب تھی۔‘‘
اُس کے بعد صحت کارڈ کے نوجوان ملازم نے کاغذات چیک کیے۔ اُس میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ آپریشن اور کچھ ٹیسٹ تھے۔ اُس نے پوچھا کہ ڈاکٹر نے کتنی فیس لی ہے؟ مَیں نے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم۔ بچی کی والدہ نے دی ہوگی۔‘‘
نوجوان نے فون پر معلومات لی۔ ڈاکٹر ماہد اقبال (Mahid Iqbal) کی فیس بارے اُس نے کہا کہ 8 سو روپے ہے اور ٹیسٹوں کی رقم ہزار روپے ہے۔ یوں مجھے 18 سو روپے نقد دیے اور کہا کہ ’’آپریشن پر کل 26 ہزار روپے لاگت آئی ہے۔ یہاں دستخط کیجیے۔‘‘ مَیں حیران رہ گیا۔ ذہن میں یہی تھا کم از کم پچاس ہزار اخراجات تو ہوئے ہوں گے۔ مَیں نے دستخط کرلیے۔ نوجوان نے کہا کہ8 دن بعد معائنہ کرا نا ہے۔ اُس کی فیس نہیں دینی۔ وہ بھی اس میں شامل ہے۔ ادویہ بھی سٹور سے لے لیں اور ادائی نہ کریں۔ اس کا مطلب وہ بھی ہوچکی تھی۔
قارئین! پورا دن وہاں گزارا۔ ڈھیر سارے مریضوں سے باتیں ہوئیں۔ صحافی ہونے کی نسبت رپورٹ بھی بنانے کا ارادہ تھا کہ صحت کارڈ میں کرپشن ہورہی ہے…… مگر کرپشن تو دور سوائے ہسپتال کے بعض ملازمین کے ناشایستہ رویے کے، کوئی بھی نقض نظر نہ آیا۔ مذکورہ ملازمین بارے بھی بعد میں معلوم ہوا کہ پرائیویٹ ہسپتال والے ان کو 14 ہزار روپے تنخواہ 12 گھنٹے ڈیوٹی کے عوض دے رہے ہیں۔ یوں ان کے رویوں کی وجہ سمجھ میں آگئی۔
بہرکیف صحت کارڈ کو اس ہسپتال میں عوام کی بہترین سہولت قرار دوں گا۔ دیگر ہسپتالوں کے بارے میں بھی (اِن شاء اللہ) تحقیق کروں گا۔ اس سے کئی سال قبل سرکاری ہسپتال میں ’’سرکاری علاج‘‘ کا تجربہ ہوچکا ہے…… جہاں پر صفائی کا انتظام بہتر ہوتا ہے، نہ ڈاکٹر بروقت موجود ہوتا ہے اور آپریشن کی ادویہ کا خرچہ الگ سے اُٹھاؤ۔
حکومت کے بعض اقدامات واقعی عوام کے مفاد میں ہوتے ہیں اور ایسے اقدامات کی تعریف بھی ضروری ہے، تاکہ اس میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ان سے بہترین کام لیا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔