تبصرہ: سفینہ بیگم
کچھ ناول ایسے ہوتے ہیں جن کا نقش ہمیشہ ہمارے ذہن پر مرتسم ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ناول ہے یوسف زیدان کا ’’عزازیل۔‘‘
مصری ناول نگار یوسف زیدان کا ناول ’’عزازیل‘‘ 2008ء میں شائع ہوا تھا۔ اِس ناول میں چوتھی صدی عیسوی میں رونما ہونے والے واقعات کو تخیلاتی اور تاریخی کرداروں کی مدد سے بڑی مہارت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔
ناول کی سب سے خاص بات یہ ہے عزازیل (ابلیس)، مرکزی کردار ’’ہیبا‘‘ کو مسلسل اس کی زندگی کے واقعات لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ ’’ہیبا‘‘ اُس کی آمد سے اُکتا کر بار بار یہ کہتا کہ تم کیوں چلے آتے ہو……؟ اس پر عزازیل کہتا ہے، شاید تم بھول رہے ہو، مَیں آتا نہیں ہوں بلکہ میں تمھارا ہی حصہ ہوں۔
عزازیل کا بہ ظاہر پوشیدہ، بہ باطن عیاں رہنا اور ہیبا کو لکھنے پر اُکسانا واقعات کی تعمیر کرتا ہے۔جس کو انسانی شخصیت کے متضاد پہلوؤں کو بیان کرنے کے لیے فنی آلہ کار کے طور پر تو استعمال کیا ہی گیا ہے۔ ساتھ ہی اس طرزِ اظہار میں راوی کا بیان محدود نہ ہوکر آزاد بنیادوں پر تشکیل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
ناول کی ابتدا میں مترجم کے معروضات کے طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ کتاب پیپائرس چرمی مخطوطوں کا ترجمہ ہے جو شام کے شہر حلب کے قدیم کھنڈرات سے دریافت ہوئے تھے…… اور آرامی زبان میں تھے…… جس کو عربی میں منتقل کیا گیا۔
اس طرح کے بیان سے قاری کو اس پر حقیقی دستاویز کا گمان ہونے لگتا ہے۔
ناول میں واحد متکلم ’’ہیبا‘‘ نامی راہب، عزازیل کے اکسانے پر واقعات قلم بند کرتا ہے…… جس میں کلیسا کی آپسی رنجشیں، عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اُن کے پیروکار کے مختلف عقائد، مذہبی شدت پسندی، معاشرے میں پیدا ہونے والے انتشار کا بیان فنی مہارت کے ساتھ کیا ہے۔
علم کی تلاش میں ’’ہیبا‘‘ اسکندریہ، حلب، انطاکیہ اور یروشلم کا سفر کرتا ہے۔ نیز اسکندریہ میں ’’اوکتاویا‘‘ کی محبت، ماہرِ علوم فلسفی ’’ہیباتیا‘‘ کا شدت پسندوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کے بیان میں جس انداز سے متشدد عناصر کی نقشہ کشی کی ہے، اُس میں زیدان کا کمال نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ انطاکیہ میں کلیسا کی چپقلش سے متعلق پادری اور راہبوں کی مجلس آرائی، یروشلم میں مارتھا سے ’’ہیبا‘‘ کی محبت، راہب ہونے کے باوجود نفسانی خواہشات کے غلبے اور دیگر واقعات کا بیان نہایت اثر انگیز ہے…… اور اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسائل کسی نہ کسی صورت میں ہر معاشرے کا حصہ رہے ہیں…… لیکن ان کی فن کارانہ پیش کش ناول نگاری کا حصہ ہے۔
اس ناول (عزازیل) کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ان موضوعات کے "Treatment” کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہوسکتا تھا، جس کو زیدان نے ناول کے قالب میں ڈھالا ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق ’’ہیباتیا‘‘ کے قتل کا درجِ ذیل بیان دل دہلا دینے والا ہے :
’’ہیباتیا اب مکمل طور پر برہنہ تھی…… اور اپنی برہنگی میں ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ اُس نے نجات کی ہر اُمید چھوڑ دی تھی اور مکمل طور پر مغلوب اور پامال ہوگئی تھی۔ نجانے کہاں سے وہ ایک رسی لائے جو اُس کی کلائی کے گرد باندھ دی گئی۔ دو تین قدموں کا فاصلہ دے کر اب اُس رسی کی مدد سے اُسے دوبارہ پختہ راستے پر گھسیٹا جانے لگا۔ اُس دن مجھے معلوم ہوا کہ ’’بطرس‘‘ اور دیگر لوگوں کو جو کھال کھینچنے کے لیے کہا تھا…… اس کا صحیح مطلب کیا تھا……!‘‘
ناول کا ترجمہ نہایت عمدہ اور رواں ہے، جس پر بالکل ترجمے کا گمان نہیں ہوتا۔ یہ ندیم اقبال صاحب صاحب کا کمال ہے۔ اجمل کمال صاحب کا بھی شکریہ کہ اُنھوں نے اس ناول تک رسائی کو آسان بنایا۔
مَیں یہ سمجھتی ہوں کہ ادب کے ہر طالب علم کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ خاصے کی چیز ہے۔ اس کے بغیر مطالعہ ادھورا ہی رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔