سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیانیے سے شہرت حاصل کرنے والا ’’سائفر‘‘ یا ’’مراسلہ سکینڈل‘‘ یا ’’ڈراما‘‘ ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان جو ایک ماہ سے لاپتا تھے، اچانک منظرِ عام پر آتے ہوئے مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کرایا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’امریکی سائفر ایک ڈراما تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان شخص نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ’سائفر، پری پلانڈ ڈراما‘ رچاکر اسے بیرونی سازش کا رنگ دیا۔ یوں ملکی سلامتی اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بویا گیا۔ عمران خان نے سائفر دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور سائفر کی زبان کو یو ایس کا بلنڈر قرار دیا۔ سائفر کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اُس نے اِس سازشی بیانیے میں کابینہ کو بھی شریک کیا۔ میرے منع کرنے کے باوجود اُس نے ’آفیشل سکریٹ‘ ایک خط کی صورت میں عوام میں جاکر لہرایا، جو سراسر قانون کے خلاف تھا۔ عمران خان نے 9 مارچ کو سائفر مجھ سے لیا اور بعد میں گُم کر دیا۔ سائفر کے معاملے میں سفیر اور سیکرٹری خارجہ کے شامل ہونے کے شواہد نہیں ملے اور اس میں شاہ محمود قریشی برابر کے شریک ہیں۔‘‘
اعظم خان کے مطابق گذشتہ سال مارچ کو سائفر کی نقول وزارتِ خارجہ کی طرف سے پانچ اہم حکام کو بھیجی گئی تھیں…… لیکن وزیرِ اعظم کے دفتر کے علاوہ باقی تمام افراد نے ضابطے (ایس اُو پی) کے مطابق ایک ماہ بعد دفترِ خارجہ کو واپس کر دی تھیں۔
قارئین! یہ تو رہی سائفر کی باتیں۔ اب آتے ہیں موجودہ حکومت کی طرف جو سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور تحریکِ انصاف کے مرکزی، صوبائی اور ضلعی رہنماؤں کے خلاف 15 ماہ سے مقدمات پر مقدمات درج کیے جا رہی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اِن مقدمات میں گرفتار تحریکِ انصاف کا جو بھی رہنما پریس کانفرنس کرکے پارٹی سے لاتعلقی اور 9 مئی کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہا کرتا ہے، اُس کے خلاف تادیبی کارروائی روک دی جاتی ہے…… اور جو اَب تک ایسا کرنے سے انکاری ہے، اُس پر حکومت نے زمین تنگ کر دی ہے۔
اتحادی حکومت کا اصل نشانہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان ہے۔ عمران خان کے خلاف 170 سے زائد مقدمے درج ہیں۔ وہ ہر روز کسی نہ کسی عدالت میں پیش ہوتے رہتے ہیں۔ عمران فوبیا چیلنج کی گھبراہٹ نے موجود حکومت کی سوچ ’’فسطائیت‘‘ میں تبدیل کر دی ہے۔ موجودہ حکومت کی فسطائی سوچ کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ایف آئی آر تک وہ خود درج نہ کرسکے۔
شہباز شریف اور اتحادی، ملک کی تمام مسائل کی جڑ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو قرار دیتے ہوئے ملک کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والے واقعے کی ایف آئی آر عمران خان کے خلاف درج کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت 15 ماہ سے ’’عمران فوبیا‘‘ کی شکار ہے۔ شہباز شریف اور اتحادی حکومت کی 15 ماہ کی کارکردگی صرف اور صرف عمران خان کو قابو میں رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی دوسری ترجیح جلد از جلد سنجیدہ اور خاصے ٹھوس ریکارڈ رکھنے والے خطرناک مقدمات سے نجات حاصل کرنا تھا، جس کے حصول میں وہ کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ اتحادی حکومت ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دھڑا دھڑ قانون سازی میں جت گئی ہے۔
اتحادی حکومت کا ایک اور کارنامہ یہ رہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آئینی تقاضے کے مطابق انتخابات نہیں کرائے، عدالتی احکامات کے خلاف مزاحمت، آئین سے لڑائی اور دنگا فساد شروع کرکے عدلیہ تک کو تقسیم کر دیا۔ یہ سب کچھ بس ’’عمران فوبیا‘‘ ہی کا شاخسانہ ہے۔
شہباز شریف اور اتحادی حکومت بہروپیوں والے انداز میں بار بار ملک و قوم کی خاطر مشکل فیصلوں کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی صدر ابراہام لنکن کا قول ہے: ’’آپ تھوڑے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے اور سارے لوگوں کو تھوڑے وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں، مگر سارے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بناسکتے۔‘‘
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے نیب میں پیش ہوکر 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں بیان ریکارڈ کروایا ہے۔
اعظم خان کے مطابق سمری کابینہ میں پیش کرنے کا فیصلہ عمران خان کی منظوری سے ہوا۔ شہزاد اکبر اور عمران خان کی مشاورت سے خفیہ سمری تیار کی گئی، جسے کابینہ نے بغیر پڑھے منظور کیا۔ اعظم خان نے یہ بھی اقرار کیا کہ رقم کیسے آئی؟ اس معاملے کے وہ عینی شاہد ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں بھی وہ پیش ہوں یا پیش ہوچکے ہوں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعظم خان، اتحادی حکومت میں اسلام آباد میں موجود تھے…… لیکن حکومت نے اُنھیں شاملِ تفتش کیا اور نہ اُن کی گرفتاری کے لیے چھاپے ہی مارے۔ سب کو علم ہے کہ حکومت نے اعظم خان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اِغوا کیا، جس کا مقدمہ درج کرنے کے لیے خاندان والوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے آئی جی اسلام آباد نے اعظم خان کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہار کیا، لیکن ایک ماہ بعد اچانک اعظم خان نے منظرِ عام پر آکر مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔ پشتو کی ایک ضرب المثل ہے: ’’چی ریشتیا رازی نو دروغو بہ کلی وران کڑی وی۔‘‘
اتحادی سمجھتے ہیں کہ جب لوگوں کو حقائق کا علم ہوگا، تو پُلوں کے نیچے سے ڈھیر سارا پانی گزر چکا ہوگا، لیکن یہ اُن کی ناسمجھی، نااہلی اور عمران سے ڈر ہے۔
یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، اس لیے حکم رانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباو کے تحت حکم رانوں کا کوئی غلط قدم ہمیں ناقابلِ تلافی بحران کا شکار کرسکتا ہے۔ ہمارے فیصلے حکمت و دانائی کے تحت ہونے چاہئیں نہ کہ ہماری روایتی سازشوں کے تحت، جس نے ماضی میں ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔