پیدایش:۔ 16 اکتوبر 1952ء
انتقال:۔ 14 ستمبر 2021ء
طارق اسماعیل ساگر کا نام اُردو فکشن رائٹرز میں بہت نمایاں تھا۔ اُنھوں نے کتابوں سے بہت پیسا کمایا۔ کئی رسالوں کے ساتھ کام کیا۔ بہت زیادہ وقت ’’نوائے وقت‘‘ کو دیا۔ کم گو اور نپے تلے انسان تھے۔ میرے تو وہ ہمسائے تھے، یعنی گلشن راوی کے ’’جے بلاک‘‘ میں کارنر والے گھر (فیسنگ پارک) میں رہتے تھے۔ مَیں جب بھی پروفیسر سیف اللہ خالد صاحب سے ملنے اُن کے گھر "100-F” جاتا، تو طارق اسماعیل ساگر صاحب کے گھر کا چکر بھی لگالیتا۔ جب مَیں نے اپنے ناول ’’ابھی بلا ٹلی نہیں‘‘ کا انتساب اُن کے نام کیا اور کتاب اُن کو گھر جا کر پیش کی، تو بہت خوش ہوئے اور نقادوں کا گلہ کرتے ہوئے کہا: ’’عرفان صاحب! آپ نے مجھے اتنی عزت دی، آپ کا شکریہ……! ورنہ نقاد تو مجھے ادیب ہی نہیں مانتے!‘‘
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
مَیں نے جواباً کہا: ’’جناب آپ نقادوں کو اُن کے حال پر چھوڑیں۔ مَیں تو آپ کو مانتا ہوں!‘‘
پتا نہیں اُس روز جانے کس موڈ میں تھے: ’’عرفان صاحب! آپ نے بھی مجھے پڑھے بغیر ہی میری عزت افزائی کی ہے۔ بتائیں، کون کون سی کتاب آپ نے پڑھی ہے میری؟‘‘
منھ پر آئی بات میں بھی نہ روک سکا: ’’جناب! میں نے آپ کی تمام کتابیں تو نہیں پڑھیں۔ ’جاسوس کیسے بنتا ہے؟‘، ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ اور ’شملے کا سوامی‘ ضرور پڑھی ہیں۔‘‘
ساگر صاحب فوراً بولے: ’’شملے کا سوامی‘‘ کیا ہے؟ ذرا بتائیں؟‘‘
ساگر صاحب یہ کَہ کر خود ہی پھنس گئے۔ میرا جواب ’’مردہ بولے کفن پھاڑے‘‘ جیسا تھا: ’’ساگر صاحب! ’شملے کا سوامی‘ کے ساتھ ایک بڑی گڑبڑ ہوئی ہے۔ آپ نے ناول میں ایک کردار کو مار کر کچھ صفحے کے بعد خود ہی زندہ کر دیا ہے!‘‘
ساگر صاحب کو کرنٹ سا پڑا۔ فوراً گئے ساتھ کے کمرے سے ’’شملے کا سوامی‘‘ اُٹھا لائے۔ افراتفری کے عالم میں ناول کے ورق اُلٹے اور میری بات کی تصدیق کرتے ہی ذرا ٹھنڈے پڑ گئے: ’’عرفان صاحب بات یہ ہے کہ مَیں بہت زیادہ لکھتا ہوں۔ ایک بار لکھنے کے بعد اُسے دوبارہ پڑھنے اور درست کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا میرے پاس۔ میرا ناول اس قدر توجہ سے پڑھنے کا آپ کا شکریہ!‘‘
ساگر صاحب نے ماہنامہ ’’ساگرد ڈائجسٹ‘‘ شروع کیا۔ مجھے لکھنے کے لیے بلایا، تو مَیں نے اُنھیں عطاء الحق قاسمی پر لکھا ہوا اپنا خاکہ ’’عطاء الحق قاسمی…… میری پسندیدہ خوشبو Poision‘‘ پیش کیا۔ پڑھتے ہوئے اُن کے ماتھے پر کئی بار پسینا آیا۔ چہرہ سُرخ ہوا۔ مکمل پڑھنے کے بعد اُنھوں نے پُرجوش انداز میں مجھ سے ہاتھ ملایا۔ کھانا کھلایا اور چائے بھی پلائی اور ارشاد فرمایا : ’’عرفان صاحب! مَیں بڑا کنجوس آدمی ہوں، مگر آج آپ کی تحریر نے مجھے اس قدر خوشی دی کہ مَیں نے آپ کو کھانا بھی پوچھا اور چائے بھی پلائی اور اب میں یہ بھی کروں گا کہ اس خاکے کی فوٹو کاپیاں پلے سے کروا کروا کر خاص خاص دوستوں کو بھی دوں گا…… مگر اسے ’’بوجوہ‘‘ اپنے ڈائجسٹ میں شائع نہیں کروں گا۔‘‘
یہ میری اُن سے آخری ملاقات تھی۔ پھر پتا چلا کہ وہ اپنے بچوں کے کہنے میں آکر گلشن راوی سے بحریہ آرچڈ، رائے ونڈ روڈ چلے گئے۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
پھر اچانک فیس بُک پر اُن کی وفات کی خبر بھی آ گئی۔ گلشن راوی میں ہوتے تو بڑا جنازہ ہو جاتا مگر ……!
اُنھوں نے اپنی آٹو بائیوگرافی ’’مجھے کھا گئے‘‘ کے نام سے لکھی، جس کے بیک کور پر خورشید رضوی کی ایک مشہور غزل بھی موجود ہے۔ مَیں نے یہ کتاب بہت شوق سے پڑھی اور طارق اسماعیل ساگر صاحب کو فون پر اس کی کمیاں بتائیں۔ انھوں نے میری آبزرویشن سے اتفاق کیا، مگرہماری زندگی میں خود اپنی کمی ہی چھوڑ گئے۔
یہ کیا ستم ڈھایا ساگر……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔