علامہ محمد اقبال کو پاکستان کے دونوں طبقات (مذہبی اور لبرل) کے نمایندے ان کے دس پندرہ اشعار یاد کرکے اُن کی بنیاد پر ’’کٹر ملا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جہاں مذہبی طبقہ اس ’’سرکاری اقبال‘‘ کو اُن چند اشعار کی اپنے سیاق و سباق میں رکھ کر تشریح کرکے کٹر مذہبی قرار دیتا ہے، تو دوسری طرف لبرل اور لیفٹسٹ طبقہ اُن کو انھی اشعار کی بنیاد پر ایک کٹر ملا قرار دے یک سر مسترد کردیتا ہے۔ مثلاً: اُن لوگوں کے ہاں اقبالؔ کا خودی کا تصور بس اس شعر کے ذریعے واضح ہوجاتا ہے کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
اب ایک مبہم شعر سے بھلا کیسے اقبالؔ کے اتنے بڑے تصور کا احاطہ ہوسکتا ہے! اقبال نے ’’اَسرارِ خودی‘‘ اور ’’رموزِ بے خودی‘‘ جیسی کتابیں بھی لکھی ہیں…… اور جو ظاہر ہے خودی کے تصور ہی پر ہیں۔ اُن کو پڑھے بغیر اس ایک شعر کو اپنے اپنے مطلب کا جامہ پہناکر لوگ اقبالؔ کی تعریف یا اُن پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔
ہماری تعلیمی کتب میں اقبالؔ کو نظریۂ پاکستان کا بانی بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے لیے اُن کے مخصوص اشعار کو کتب میں شامل کرکے ریاست اپنے مقاصد کا حصول چاہتی آتی ہے۔ ہم نصابی لوگ بھی بس ’’لب پہ آتی ہے‘‘، ’’مکڑا اور مکھی‘‘ اور چند معروف نظموں جیسے ’’قرطبہ کا قاضی‘‘، ’’خضرِ راہ‘‘، ’’شکوہ، جوابِ شکوہ‘‘ وغیرہ سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ان معروف اشعار اور نظموں پر اکتفا کرکے اقبالؔ کی شاعری اور فکر کو سمجھنے کا دعوا کرتے ہیں۔
اقبالؔ کے اشعار کو مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ اپنی ذاتی فکر کا جامہ پہناتے ہیں۔ اقبالؔ کے مشہور شعر
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
کی لوگ تشریح اپنی بساط کے مطابق یوں کرتے ہیں کہ گویا قوم کی ابتدا غیرت سے شروع ہوتی ہے اور انتہا بے غیرتی پر۔ یہ تشریح اپنے اردگرد سماج اور اپنی قبائلی تربیت کے سیاق و سِباق کے مطابق کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اُن کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی قوم میں جب آلاتِ موسیقی فروغ پائیں، تو اُس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا قوم کے لیے لازمی ہے کہ بس جنگی ہتھیار ہی بنایا کرے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں دو وقت کی روٹی بہ مشکل ملتی ہو اور جو نسل در نسل قرضے میں ڈوبی ہو، ایسی تشریح کوئی انوکھی بات بھی نہیں!
یہ شعر ’’بالِ جبریل‘‘ کی ایک غزل سے ہے۔ اقبالؔ کی کتاب ’’بالِ جبریل‘‘ 1935ء میں شائع ہوئی تھی۔
اگر اقبالؔ کے وسیع مطالعے اور تناظر میں دیکھا جائے، تو وہ سماجیات کے کئی ماہرین سے متفق ہوکر تہذہب و تمدن کے ایک ارتقائی/ عمودی نکتۂ نظر سے ہم کنار ہوکر اسی شعر میں کہنا چاہتے ہیں کہ ہر گروہ شروع میں جنگ جو اور وحشی ہوتی ہے، لیکن جوں ہی وہ قوم بن جاتی ہے اور آگے ترقی کرتی ہے، تو اُس کے ہاں فنون و ادب کی صورت میں تہذیب پنپتی ہے۔ اس نکتۂ نظر سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے…… لیکن یہ تہذیبی یا ثقافتی ترقی کا ایک مفہوم ہے، جس کو کئی دانش وروں نے پیش کیا ہے۔
اس کا ایک دوسرا پس منظر بھی ہے۔ اوسولڈ سپنگلر (Oswald Spengler) کی کتاب زوالِ مغرب (The Decline of the West) سنہ 1922ء میں شائع ہوئی تھی اور تاریخ، فلسفے اور کلچر پر ایک منفرد کتاب کی حیثیت سے یہ دنیا میں چھا گئی تھی۔ یہ کتاب اقبالؔ کے زیرِ مطالعہ رہی اور انھوں نے اپنی فکر میں اس کتاب کے تفکرات کو بھی خوب استعمال کیا۔
سپنگلر کی رُو سے کلچر آگے جاکر تہذیب بن جاتا ہے۔ کلچر کے تہذیب بننے میں ہزاروں سال لگتے ہیں اور جب یہ تہذیب بنتا ہے، تو وہاں سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے، جس میں بھی ہزاروں سال لگتے ہیں۔ بالِ جبریل کی ایک اور طویل نظم ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ سے ایک شعر یوں ہے:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
اسی شعر میں ٹیکنالوجی اور مشینوں کی انسان پر حکم رانی سے پیدا شدہ مسائل پر گرفت کی گئی ہے۔ یہ خیال بھی لگتا ہے کہ سپنگلر کی کتاب سے لیا گیا ہے، جہاں وہ مشینوں کو انسانوں کا نیا خدا کہتا ہے اور ان پر لعن طعن کرتا ہے کہ انھوں نے وہ فطری زندگی تباہ کردی ہے جس میں انسانوں کے جذبات ہوا کرتے ہیں، مشینوں نے وہ اخوت اور اقدار چھین لیے۔ دوسری طرف مشینوں نے عام انسانوں کو بے روزگار بھی کردیا ہے۔
اوپر عرض کیا کہ ہم کئی نظریات کو اپنے پہلے سے موجود تعصب کا جامہ پہنا کر اپنے لیے مثبت یا منفی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہاڑوں اور صحراؤں میں بسنے والے لوگوں کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
اس شعر کو پہاڑوں میں بسنے والے کوہستانی لوگ اس تواتر سے لکھتے اور کہتے ہیں کہ گویا حضرتِ اقبالؔ نے اُن کو دیکھ کر یہ شعر کہا تھا۔ حالاں کہ اس شعر کے مفہوم میں بھی وہی مہذب اور غیر مہذب کا تصور چھپا ہوا ہے۔
جب سے یورپ نے ایک ریاست کا تصور دیا ہے، تو کئی دانش وروں اور فلسفیوں نے اس پر اپنی متبادل فکر پیش کی ہے۔ کسی نے دنیا کے موجودہ مسائل کا حل سرمایہ داری نظام میں دیکھا، تو کارل مارکس جیسے فلسفیوں نے اس کو انسانیت کے لیے زہر سمجھا، اور ایک متبادل نظامِ اشتراکیت کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح کئی مفکرین مثلاً: ’’روسو‘‘ (Rousseau) اور ’’جھان لاک‘‘ (Locke) نے نیچر سٹیٹ/ فطرتی ریاست (Nature State) کا تصور دیا جو بقولِ روسو اخلاقی طور پر نیوٹرل اور پُراَمن ہوتی ہے اور جہاں لوگ صرف اپنی فطری جبلتوں جیسے بھوک اور بقا کی فکر کرتے ہیں۔ روسو کی اس فطری ریاست میں مذہب، تہذیب اور عقل کو کوئی عمل دخل نہیں۔ دوسرے الفاظ میں جہاں سیاسی کشمکش، تہذیب اور عقل، اخلاق اور کسی ’’اتھاریٹی‘‘ کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اقبالؔ نے ’’جھان لاک‘‘ اور ’’روسو‘‘ کے اس خیال کو آگے بڑھایا اور اس کو مقامی استعارات میں سمو کر پیش کیا۔ اقبالؔ کے نزدیک ایسے لوگ صرف خانہ بدوش، کوہستانی یا صحرائی ہوسکتے ہیں جن کو صرف اپنی بقا اور فطری جبلتوں سے واسطہ ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تہذیب نہیں بناتے۔ کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتے بلکہ اپنی مویشیوں کے چارے کی خاطر ہمیشہ خانہ بدوش رہتے ہیں۔ اقبالؔ کے اس شعر میں فطرت کے مقاصد سے مراد یہی جبلتیں یعنی بھوک اور بقا (بچے پیدا کرنا) ہے۔
اقبالؔ ایک وسیع المطالعہ شاعر اور فلسفی ہیں۔ اس دریا کو اپنی منشا کے مطابق ایک کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جہاں اسلام کی سربلندی اور امت کے اتحاد پر زور دیتے ہیں، وہی پہ وہ ملحد فلسفی اور اشتراکیت (Communism) کے بانی فلسفی کارل مارکس (Karl Marx) کے بارے میں لکھتے ہیں:
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
اب بھلا کون مذہبی اور جدیدت کا دل دادہ ان باتوں کو مانے گا، کون خود کو وحشت میں لے جانا چاہے گا، فطری ریاست بھی افلاطون کی ’’یوٹوپیا‘‘ (Utopia) ثابت ہوئی ہے کہ اس کا وجود ممکن ہی نہیں!
ان دو گرہوں (سطحی لبرل اور سطحی مذہبی) کے علاوہ ایک گروہ ’’قوم پرستوں‘‘ کا ہے، جو اقبالؔ کی پوری شاعری کو کسی دوسری زبان کے بڑے شاعر کی شاعری کی نقل قرار دیتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک اقبالؔ نے سرے سے کچھ تخلیق ہی نہیں کیا ہے اور سب کچھ دیگر بڑے شاعروں سے لیا ہے۔ یہاں ہم شاید بھول جاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ ان دونوں شعرا کی فکر کا وسیلہ (سورس) شاید ایک ہو، جو کوئی مشرقی یا مغربی شاعر، فلسفی اور مفکر ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ سعدی شیرازیؔ، خیامؔ، بیدلؔ وغیرہ بھی تو گزرے ہیں اور ان کی شاعری سے ہماری لوک کہانیوں تک متاثر ہوئی ہیں۔
اس پورے مضمون کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں اگر اقبالؔ کو سمجھنا ہے، تو اُس کے زمانے تک پورے مغربی اور مشرقی فلسفے (اگرچہ علوم میں ایسی دوئی بھی مناسب نہیں) کو سمجھنا ہے۔ ساتھ تاریخ اور سیاسی فلسفے کو بھی سمجھنا ہے۔ مشرقِ وسطی اور برصغیر کی مقامی شاعری اور فکر کو بھی سمجھنا ہے۔
علامہ اقبالؔ کئی فکری دھاروں کی آمیزش ہیں۔ اُن کو سمجھنے کے لیے اُن دھاروں کا سرسری ہی سہی کچھ علم ہونا ضروری ہے، ورنہ یوں ہی ہم نصابی اقبالؔ کو کوستے اور پوجتے رہیں گے۔ اقبالؔ کو ریاست سے بھی الگ کرکے پڑھنا لازمی ہے۔ اقبالؔ نے بلاشبہ ہر مغربی و مشرقی چشمے سے پانی پیا ہے، تاہم اُن کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے اُن دقیق افکار کو مقامی استعارات میں لپیٹ کر بہت ہی خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ترجمے کے اُصول کے مطابق بھی یہ بہت بڑا کمال ہے۔
قارئین! مَیں اقبال پر کوئی نقد لکھنے سے عاجز ہوں کہ مجھے اب تک درجِ بالا بیان کیے گئے دھاروں پر کوئی دسترس حاصل نہیں۔ بس یوں ہی چند خیالات اُبھر آئے تھے، جن کا اظہار کردیا۔
مجھے تو علامہ اقبالؔ ایک بہت ہی اہم دانش ور لگتے ہیں اور ہمیں اُن کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔