ترجمہ: رومانیہ نور
یہ حقیقی زندگی کی اُن دل پذیر کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے، جو سچی محبت کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ڈاکٹر پردیومنا کمار مہاننڈیا کی کہانی ہے، جن کا تعلق ہندوستان سے ہے اور شارلٹ وان شیڈوِن، جن کا تعلق سویڈن سے ہے۔
پردیومنا کمار، اڑیسہ میں ایک اچھوت اور کم آمدنی والے گھرانے میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ہونہار فن کار تھا، لیکن اُس کا خاندان پیسے کی کمی کی وجہ سے اُس کی تعلیم کے لیے اخراجات مہیا نہیں کرسکتا تھا۔ ذات پات کے نظام کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے اُس کی ہمیشہ توہین کی گئی۔
بعد ازاں وہ 1971ء میں نئی دہلی کے کالج آف آرٹس میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ وہاں اُس نے اپنی خوب صورت تصویروں کی بدولت خاصی مقبولیت حاصل کی۔ چار سال بعد، ایک 19 سالہ طالبہ شارلٹ وان شیڈوِن جو لندن میں آرٹ کی ایک طالبہ تھی، تصویر کشی کے فن میں مہارت حاصل کرنے اور اپنا پورٹریٹ بنانے کے لیے ہندوستان آئی۔ پورٹریٹ بنانے کے دوران میں پردیومنا کمار کو اس کی خوب صورتی اور اُسے پردیو منا کمار کی سادگی سے پیار ہوگیا۔
شارلٹ نے اپنا نام بدل کر چارولتا رکھ لیا اور ہندوستانی روایات و رسومات کے مطابق کمار سے شادی کرلی۔ یہ وہ وقت تھا جب شارلٹ کو واپس سویڈن جانا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ اُس کا شوہر پردیومنا اُس کے ساتھ چلے، لیکن اُس نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا ارادہ کیا۔
شارلٹ نے اسے بعد میں ہوائی ٹکٹ بھیجنے کی پیشکش بھی کی، جس پر کمار نے یہ کَہ کر انکار کر دیا کہ وہ خود اُس سے ملنے آئے گا۔ دونوں خطوط کے ذریعے محبت کا اظہار کرتے رہے۔ فاصلہ اُن کے درمیان رکاوٹ نہیں تھا۔ کمار نے وعدہ تو کر لیا تھا، لیکن در حقیقت اس کے پاس رقم نہیں تھی۔ وہ اپنی محبت سے دست بردار نہ ہو سکا اور پھر اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اُس نے اپنا سب کچھ بیچ ڈالا اورایک سیکنڈ ہینڈ سائیکل خریدی۔ اپنے تمام برش ساتھ رکھے اور اپنی محبت سے دوبارہ ملنے کے لیے دور دراز مغرب کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ یہ ایک خواب کی طرح لگتا ہے، ہے ناں……!
راستے میں اُس کی سائیکل چند بار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ۔ یہاں تک کہ پیسوں کی کمی کی وجہ سے اُسے کئی دن تک بغیر کھائے پیے رہنا پڑا، لیکن وہ سویڈن پہنچنے کے لیے پُرعزم تھا۔ چار ماہ اور تین ہفتوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد آخرِکار وہ سویڈن کے شہر گوٹنبرگ پہنچ گیا۔
وہاں موجود امیگریشن افسران کی پوچھ گچھ پر اُس نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور اپنی شادی کی تصاویر بھی دکھائیں۔ حکام حیران رہ گئے کہ شاہی خاندان کا کوئی فرد ایک غریب آدمی سے شادی کیسے کرسکتا ہے، وہ بھی ایک ہندوستانی سے……! جب شارلٹ کو اس بات کا علم ہوا، تو اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ اپنے شوہر کے استقبال کے لیے گوٹنبرگ چلی آئی۔ اُس کے خاندان نے پردیومنا کو اپنے خاندان کے فرد کے طور پر قبول کرلیا اور اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔
اب اُن کی شادی کو 40 سال ہو چکے ہیں اور پردیومنا اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ سویڈن میں رہتے ہیں۔ وہ سویڈن میں ایک مشہور فن کار ہیں اور سویڈش حکومت کے زیرِ ِانتظام مشیرِ فن و ثقافت کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اُن کے گاؤں والے جو کبھی اُن سے گریز پا رہتے تھے، اب ہر بار جب وہ ہندوستان جاتے ہیں، تو اُن کا پیار سے والہانہ استقبال کرتے ہیں۔
یہ زندگی ہے۔ اس کے متعلق پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ یہ غیر متوقع ہے۔ کیوں کہ آپ کے پاس وہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت استعمال کرنے کی طاقت ہے جس کے آپ مستحق ہیں۔ یہ محبت کی سب سے زیادہ دل کو چھو لینے والی کہانی ہے۔
(آمنہ بھلّہ کی انگریزی تحریر "Where Two Ends Meet” کا اُردو ترجمہ)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔